میں نے اسے سردیاں، گرمیاں کرتا اور پاجامہ میں ملبوس دیکھا۔ پاؤں میں انگوٹھے والی چپل، بوٹ اس نے کبھی نہیں پہنے البتہ جاڑے کے موسم میں کوٹ پہن لیتا تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں ہوتی۔ کتا ب کے بغیر وہ ادھورا تھا۔ اس نے مجرد زندگی بسرکی۔ کرشن نگر اس کی ہمشیرہ کا گھر تھا اور وہیں قیام پذیر رہا۔ کرشن نگر سے پاک ٹی ہاؤس پیدل آتا اور پیدل ہی واپس چلا جاتا۔ رکشا، ویگن یا بسوں میں اس نے کبھی سفر نہ کیا البتہ کوئی دوست کار میں لفٹ دیتا تو وہ بیٹھ جاتا۔ ٹی ہاؤس میں اپنی مخصوص کردہ میز کے گرد کرسی پر بیٹھ جاتا۔ شام کو انتظار حسین تشریف لاتے تو وہ اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتے۔ انتظار حسین کے علاوہ ناصر کاظمی، انیس ناگی، ڈاکٹر انور سجاد، احمد مشتاق، غالب احمد، پروفیسر شہرت بخاری، انجم رومانی، الطاف احمد قریشی، سلیم شاہد اور سہیل احمد خان، اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ اس نے کم لکھا، پڑھا زیادہ۔ وہ ادبی حلقوں میں ہمیشہ سرگرم اور معتبر حیثیت کا حامل رہا۔ انتظار حسین سے اس کا زیادہ تعلق رہا۔ ’’فالتو آدمی‘‘ کے نام سے انتظار حسین نے اس کا خاکہ لکھا۔ عمر کے آخری چند برس اس نے جیل روڈ پر واقع انتظار حسین کی رہائش گاہ میں گزارے۔ یہ ’’فالتو آدمی‘‘ زاہد ڈارتھا۔ 13 فروری کو 84 برس کی عمر میں اس کی زندگی کا سفر ختم ہو گیا۔ انتظار حسین کی پیدائش ہندوستان کے ضلع بلند شہراور زاہد ڈار کی جنم بھومی لدھیانہ کی تھی۔ دونوں میں گہری دوستی رہی۔ زاہد ڈار کا سن پیدائش 1936ء ہے چھٹی تک اس نے لدھیانہ (انڈیا) ہی میں تعلیم حاصل کی۔ جب برصغیر تقسیم ہوا، اس کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ زاہد ڈار کا بھائی حامد ڈار گورنمنٹ کالج لاہور میں اکنامکس کا پروفیسر تھا۔ بہن کے علاوہ بھائی اس کو سپورٹ کرتا رہا۔
1971ء سے 1974ء تک میں پنجابی ادبی سنگت کا سیکرٹری رہا۔ سنگت کے ہفتہ وار اجلاس وائی ایم سی اے کے کمرہ نمبر ایک میں ہوتے۔ سنگت کے اجلاس کے بعد میں ٹی ہاؤس آ جاتا اور زاہد ڈار سے علیک سلیک ہوتی۔ اس سے گفتگو کا موقع کم ملا۔ ٹی ہاؤس بند ہونے کے بعد وہ ٹی ہاؤس کے سامنے ریلنگ پر بیٹھ کرکتاب کا مطالعہ کرتا رہتا۔ خبروں سے پتہ چلا کہ زندگی کے آخری ایام اس نے کیو بلاک ماڈل ٹاؤن فلیٹ میں گزارے۔ جہاں یہ ایک فیملی کے ساتھ Paying guest کے طورپر مقیم رہا۔ اسی جگہ اس کی تجہیز و تکفین ہوئی ۔ زاہد ڈار کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ ’’درد کا شہر‘‘ (1965) محبت اور مایوسی کی نظمیں اور ’’تنہائی‘‘ (1988) ’’درد کا شہر‘‘ اس کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو ادارہ نئی مطبوعات نے مارچ 1965ء میں شائع کیا۔ 80 صفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے کی قیمت ایک روپیہ پچاس پیسے تھی۔ 1968ء کو میں نے یہ مجموعہ خریدا جو میری لائبریری میں موجود ہے۔ ’’درد کا شہر‘‘ کا پیش لفظ پروفیسر جیلانی کامران نے لکھا جو ان دنوںگورنمنٹ کالج لاہورمیں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ 14 صفحات پر مشتمل اس پیش لفظ میں جیلانی کامران نے زاہد ڈار کی شاعری اور شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ کتاب کا فلیپ محمد صفدر کے نام ہے۔ جیلانی کامران لکھتے ہیں ’’زاہد ڈار کا مجموعہ ’’درد کا شہر‘‘ نئی نظم کی تحریک میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، ’’درد کا شہر‘‘ کی نظمیں نہ تو قدیم شعری اور عروضی مزاج کی نمائندگی کرتی ہیں اور نثری نظموں کے زمرے میں شامل ہیں۔ یہ نظمیں ایک ایسے عروضی پیمانے کے مطابق مرتب کی گئی ہیں جو بات چیت کے مطابق ہے۔
مجموعے کی آخری نظم ’’درد کا شہر‘‘ ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
زمین پر کئی شہر ہیں
جو اس شہر سے خوبصورت ہیں، لیکن
ہمارے لیے ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے
خوشی اور مسرت یہیں ہیں
یہی زندگی ہے
اس شہر کے راستوں میں مظالم سہے ہیں
یہیں دوستی اور محبت کے بدلے
حقارت ملی ہے
مگر پھر بھی ہم کو
کہیں اور جانے کی خواہش نہیں ہے
یہیں مطمئن ہیں
یہاں ہم اکیلے نہیں ہیں
جنھوں نے مظالم کٹے ہیں
جنھوں سے سہے ہیں
اکٹھے جیئے ہیں، اکٹھے مریں گے
یہی زندگی ہے
اندھیرے میں ہم نے سنی ہیں وہ چیخیں
کہ دل کانپ اٹھے
جہالت کی کالی گھٹائیں
ہمارے سروں پر امڈتی رہی ہیں، برستی رہی ہیں
یہی زندگی ہے
کئی بار بچوں کو اور عورتوں کو
روایات کے آہنی جال میں قید دیکھا
تڑپتے، بلکتے، سسکتے ہوئے ، جان دیتے
جہنم کے موسم میں گزرے
تباہی کے منظر بھی دیکھے
مگر پھر بھی ہم کو
کہیں اور جانے کی خواہش نہیں ہے
عجب کیا کسی دن
ذہانت کا سورج
ہرا دے جہالت کی کالی گھٹاؤں کو اور صبح جاگے
(دسمبر 1964ئ)