شفاف سینٹ الیکشن ، عوام کا حق جسٹس گلزار، دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل جواب الجواب دینگے

Feb 24, 2021

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی کو سینٹ الیکشن کی شفافیت پر اعتراض نہیں۔ اختلاف رائے صرف سینٹ الیکشن شفاف بنانے کے طریقہ کار پر ہیں۔ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے۔ قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ شہری ووٹرز کا حق کبھی اوپن نہیں ہوتا۔ آئرش سپریم کورٹ کے فیصلہ میں شہری ووٹ کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی شہری کا ووٹ خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اپر ہائوس کا الیکشن ڈائریکٹ نہیں ہوتا۔ رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ رولز صدارتی انتخابات کے لئے کمشنر کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ رولز کے آئین کے تحت بنے ہیں۔ رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے لیے بنے رولز کی حیثیت آئینی نہیں ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صدارتی الیکشن کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔ چیئرمین سینٹ‘ سپیکر اسمبلی کا الیکشن انکے عہدے کا انتخاب ہوتا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے۔  چیف جسٹس اور سینیٹر رضا ربانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا ربانی صاحب قانون تو معصوم ہوتا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ نا صرف معصوم ہوتا ہے بلکہ قانون تو اندھا بھی ہوتا ہے جج صاحب! رضا ربانی کے جواب پر چیف جسٹس گلزار احمد مسکرا دیئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینٹ میں بھی ملے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے  کہا کہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایسا طریقہ بھی بتا دیں کہ ووٹ دیکھا بھی جائے سیکریسی متاثر نہ ہو۔ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے کے پہلے کے مراحل ہیں۔ ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے۔ کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اسکے لئے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا؟۔ ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کے لئے دی گئی۔ رضا ربانی نے کہا کہ کوئی پیسے لیتا پکڑا گیا تو کوئی شواہد بھی ہوں گے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاں ویڈیو آچکی ہے وہاں کوئی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ کونے میں کھڑے ہو کر بات کریں تو گواہ کہاں سے آئے گا۔؟ ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہو سکے کس کو کس نے ووٹ دیا؟۔ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ  پیسہ لینا اور ووٹ دینا دونوں کو ثابت کرنا ہو گا۔  جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹ ہی نہ ڈالا جائے تو شناخت کی ضرورت نہیں۔ کوئی ووٹ نہ ڈالے تو پیسہ لینا ثابت کرنا ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ریفرنس میں کسی دوسرے کے دلائل سننا لازمی نہیں۔ عدالت کل میرا جواب الجواب سن کر اپنی رائے دے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کا حق ہے سینٹ الیکشن شفاف اور کرپشن سے پاک ہوں۔ کسی کو سینٹ الیکشن میں شفافیت پر اعتراض نہیں۔ اختلاف رائے صرف سینٹ الیکشن کو شفاف بنانے کے طریقہ کار پر ہے۔ اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ریفرنس یکم مارچ تک چلتا رہا تو ریفرنس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنس پر کارروائی مکمل کرنی ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو آج دلائل مکمل کرنے کیلئے آدھے گھنٹے کا وقت دیدیا اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق نائیک کو بھی آج آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ اور جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے رضا ربانی کے دلائل اپنا لئے۔ عدالت نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر ظفراللہ کو بھی آدھا گھنٹہ ملے گا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی بار کونسلز کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اور پاکستان بار کونسلز کو آج آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی اور قرار دیا کہ تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل جواب الجواب دینگے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آج بارہ بجے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

مزیدخبریں