رحمن ملک صاحب سے عرصہ ہوا سرسری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔وہ اگرچہ میرے ساتھ ہمیشہ بہت احترام اور پیار سے ملا کرتے۔کئی بار ٹی وی انٹرویوز میں کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کرتے رہے کہ 1990ء کی دہائی میں انہیں ’’دہشت گردی‘‘ پر توجہ مرکوز رکھنے کو اس خاکسار نے مائل کیا تھا۔وہ اس کی وجہ سے میرے احسان مند ہیں۔جب بھی ہماری سرراہ ملاقات ہوجاتی تو بہت اصرار اور چائو سے ہمارے مابین تنہائی میں طویل ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے۔ میرا جی مگر اس جانب کبھی مائل ہی نہ ہوا۔ان سے ذاتی تعلق جس انداز میں استوار ہوا تھا اس کی بابت میں ہمیشہ دل ہی دل میں شرمسار رہا۔ ملک صاحب اگرچہ اس تناظر میں قطعاََ بے نیاز ہوچکے تھے۔
اپنی شرمساری کی وجہ عیاں کرنے سے قبل یہ بتانا لازمی ہے کہ اسلام آباد بنیادی طورپر غیبت کا مرکز ہے۔کوئی متحرک رپورٹر اس شہر میں چند ماہ گزارنے کے بعد طاقت ور سیاستدانوں اور ریاست کے دیگر اداروں کے کرتا دھرتا افراد کے بارے میں ان سے سرسری ملاقات نہ ہونے کے باوجود بھی بہت کچھ جان لیتا ہے۔اچھی بات اس تناظر میں شاذ ہی سننے کو ملتی ہے۔ زیادہ توجہ لوگوں کی بھداُڑانے ہی پر مرکوز رکھی جاتی ہے۔
1993ء کے انتخاب کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بارپھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں تو نصیر اللہ بابر مرحوم ان کے انتہائی بااختیاروزیر داخلہ ہوگئے۔بابر صاحب مزاجاََ پکے فوجی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو انہوں نے ہمیشہ سازشی چاپلوسوں میں گھرا تصور کیا۔ ان کے سیاسی مخالفین کو بھی کسی صورت معاف کرنے کو آمادہ نہیں تھے۔اسی جذبے کے تحت انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی لاہور کے شریف خاندان اور گجرات کے چودھریوں کو ریاستی قوت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے ’’سیدھا‘‘ کرنے کی ٹھان لی۔اس عمل کا آغاز نواز شریف صاحب کے والد محترم کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری سے ہوا۔
بابر صاحب میرے بہت مہربان تھے۔ میں ان کی شفقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر پارلیمان میں واقع ان کے دفتر میں گھس کر کج بحثی میں اُلجھ جاتا۔ ان سے گفتگو کرتے ہوئے مصر رہتا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہمارے ہاں جمہوریت کی علامت تصور ہوتی ہیں۔ان کی حکومت کے دوران سیاسی مخالفین کے ساتھ ویسا سلوک نہیں ہونا چاہیے جو ہماری تاریخ کے بدترین آمر اپنے مخالفوں کے لئے اختیار کیا کرتے تھے۔بابر صاحب مجھے سادہ لوح قرار دیتے ہوئے باتوں کا رُخ دیگر امور کی جانب موڑنے کی کوشش کرتے۔ان دنوں یہ بات بہت مشہور تھی کہ وہ افغانستان میں ابھرے طالبان کی دیدہ دلیری کے ساتھ سرپرستی فرمارہے ہیں۔مبینہ سرپرستی کی تردید کے بجائے وہ مجھے اس امر پر قائل کرنے میں مصروف ہوجاتے کہ مجھے اسلام آباد میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ دنوں کے لئے افغانستان چلے جانا چاہیے۔ ان کی دانست میں وہاں ’’نئی تاریخ‘‘ مرتب ہورہی تھی۔ میں اس کے مشاہدے کی بدولت اپنے انگریزی اخبار کے لئے مضامین لکھتے ہوئے عالمی میڈیا میں بھی اہم مقام حاصل کرسکتا ہوں۔ اس ضمن میں وہ میری ہر نوع کی سرپرستی فرمانے کو آمادہ بھی تھے۔ میں مگر پکڑائی نہیں دیا۔بضد رہا کہ بابر صاحب کو سیاسی مخالفین کے ساتھ ہتھ ہولا رکھنا چاہیے۔
محترمہ کے سیاسی مخالفین کو ریاستی قوت کے استعمال کے ذریعے دیوار کے ساتھ لگانے کے عمل میں رحمن ملک صاحب بابر صاحب کے کلیدی مصاحب تھے۔ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے سوچا کہ بابر صاحب کے خلاف تندوتیز کلمات لکھنے کا تو مجھ میں حوصلہ نہیں۔رحمن ملک صاحب کو البتہ پھکڑپن کی زد میں لایا جاسکتا ہے۔یہ طے کرنے کے بعد میں نے رحمن ملک صاحب کا صحافتی تعاقب شروع کردیا۔ ان کے بارے میں طنزیہ تراکیب گھڑتے ہوئے انہیں ’’فسطائیت کی علامت‘‘ دکھانا شروع ہوگیا۔
پھکڑپن کے ان مراحل میں ایک دن میں اپنے گھر کمپیوٹر پر بیٹھا قومی اسمبلی کی کارروائی کی بابت انگریزی اخبار کے لئے ’’پریس گیلری‘‘ والا کالم لکھ رہا تھا تو میرا فون بجنا شروع ہوگیا۔ کالم لکھتے ہوئے میں عموماََ فون اٹھانے سے گریز کرتا ہوں۔مسلسل گھنٹیوں کی وجہ سے مگر مجبور ہوگیا۔دوسری جانب ایک انتہائی بااعتماد مہربان تھے۔ انہیں محترمہ کے قریبی مصاحبین میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔انہوں نے گھبراہٹ بھرلہجے میں اطلاع دی کہ رحمن ملک صاحب تھوڑی ہی دیر قبل وزیر اعظم صاحبہ سے ایک ’’خصوصی ملاقات‘‘ سے فارغ ہوئے ہیں۔اس ملاقات کے دوران وہ میرا نام لیتے ہوئے شکوہ کنائی میں بھی مصروف رہے۔محترمہ نے انہیں میری تحریروں کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ بالآخر یہ کہنے کو مجبور ہوگئے کہ وہ ایک باعزت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اپنی مسلسل توہین برداشت نہیں کرسکتے۔
سچی بات ہے کہ مجھے یہ اطلاع سن کر درگزر کردینا چاہیے تھا۔انسان بنیادی طورپر مگر انا پرست ہوتا ہے۔اپنا کالم تقریباََ مکمل کرچکا تھا۔اس کے آخری پیروں میں ’’پس نوشت‘‘ کے عنوان کے ساتھ میں نے لکھ دیا کہ رحمن ملک صاحب وزیر اعظم کے روبرو میرے خلاف شکایات کے انبار لگارہے ہیں۔کسی دن مشتعل ہوکر میں لکھنے کو مجبور ہوجائوں گا کہ وہ کیسے ’’خاندانی‘‘ ہیں۔
دوسرے دن وہ کالم چھپا تو مجھے ازخود ’’خاندانی‘‘ والا فقرہ پڑھتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوئی۔ یہ صحافتی معیار کے سے گرا اورذاتی غضب سے مغلوب ہوا فقرہ تھا۔ تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔خود سے شرمندہ ہوا بیٹھا تھا تو میری بیوی نے اطلاع دی کہ رحمن ملک صاحب اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آئے ہیں۔ڈرائنگ روم میں بیٹھے میرے منتظر ہیں۔میں ان کی پیش قدمی سے ہکا بکارہ گیا۔ خود پر قابو پاتے ہوئے کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔
ملک صاحب نے اُٹھ کر بہت تپاک سے مجھے گلے لگایا۔اپنی اہلیہ سے تعارف کروایا۔اس کے بعد چائے لگ گئی تو انہوں نے نہایت تفصیل سے بیان کرنا شروع کیا کہ کیسے ایک نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور بالآخر ایف آئی اے کے طاقت ور ترین افسر کے مقام تک پہنچے۔انہیں مجھ سے گلہ فقط اتنا تھا کہ میں خود کو ’’سوشلسٹ اور غریبوں کا حامی‘‘ بتاتے ہوئے بھی ملک صاحب کی ’’خاندانی حیثیت‘‘ پر تضحیک آمیز سوال اٹھارہا ہوں۔ اپنے دفاع کے لئے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کرپایا۔ ان سے کامل دیانت داری کے ساتھ معافی کا طلب گار ہوا۔
مذکورہ ملاقات کے بعد رحمن ملک صاحب جب بھی میرے روبرو آتے تو میں دل ہی دل میں شرمسار محسوس کرتا۔2008ء سے 2013ء تک قائم رہی حکومت میں وہ خود وزیر داخلہ بن گئے تھے۔ان کا اس مقام تک پہنچنا ان کی لگن کا یقینا انعام تھا۔بطور وزیر داخلہ مگر وہ کراچی میں ایم کیو ایم اور لیاری گینگ کو جس انداز میں ڈیل کررہے میں اس کا شدید ترین ناقد رہا۔ان کے ساتھ مگر پھکڑپن کی جرأت نہیں ہوئی۔میری تنقید سے مشتعل ہونے کے بجائے وہ مجھ سے ازخود رابطہ استوار کرنے کے بعد وضاحتیں دینے کی کوشش کرتے۔ان سے تندوتیز بحث میں الجھنے کے بجائے میں ان کے چہرے پر مسلسل جمی مسکراہٹ کی تعریف میں مصروف ہوجاتا اور ان کی ٹائی کو ہاتھ لگاتے ہوئے سراہتا۔یوں ان کی بات ٹالنے کی کوشش کرتا۔
بدھ کی صبح ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو بہت کچھ یاد آگیا۔ربّ کریم ان کی خطائوں کو معاف کرے۔ہمارے دلوں کو بھی کشادگی عطا فرمائے جو اپنی محنت وذہانت کے بل بوتے پر مشہور اور کامیاب ہوئے افراد کو ’’اشرافیہ‘‘ میں گھس بیٹھیا قرار دیتے ہوئے پھکڑپن کی زد میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔