حکومتیں جب سرگرم پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے آرڈیننس کے ذریعے جب کوئی قانوں نافذ کرتی ہے تو اس میں ڈھکی چھپی منفی سوچ کارفرما ہوتی ہے ، گزشتہ بیس سالوںکے دوران آنے والی پاکستان پر قابض حکومتوںنے معزز پیشے ’’میڈیا ‘‘ کا جس بے دردی سے استحصال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ میڈیا کیلئے سب سے برا دور گزشتہ چند سالوں سے ہے جب مالی خساروں کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری میں ہزاروں کی تعداد میں بے روزگاری ہوئی، ادارے بند ہوئے ، بغیر کسی تحقیق کے الیکٹرانک میڈیا کو لائسنس جاری ہوئے ۔ دیگر صنعتوں سے وابسطہ افراد جنہیں کسی بھی حکومت کی قربت نصیب ہوئی چینلز اور اخبارات کے لائسنس لیکر اپنی دیگر صنعتوں کو تحفظ فراہم کیا ، تاکہ صنعتی شعبوں میں حکومت سے مراعات حاصل کرنے میں آسانی ہو، گزشتہ تین سالوں میں میڈیا ہائوسز جو مالی مشکلات کا شکارہوئے ۔ اب ایسی صورتحال میں حکومت کی خواہش ہے کہ اس ملک میں اعلی اور ذمہ دار صحافت ہو تو یہ بڑی معصوم خواہش ہے ۔حکومت کوئی بھی قانون نافذکرنے سے قبل کم از کم اسکے متعلقہ شعبہ جات سے منسلک افراد سے اگر مشورہ کرلیتی تو اچھا تھا۔ اپنے آپ عقل کل سمجھتے ہوئے آرڈیننس تو جگ ہنسائی کاسبب بنتا ہے جس میں حکومت کی اپنی ذاتی خواہشات پنہا ں ہوتی ہیں۔ آج جس پیکا کا تذکرہ ہے اس قانون کا سہراء پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے سر جاتا ہے جو اب سب سے زیادہ شور مچا رہی ہے ، قانون تو متعارف انہوںنے کیا تھا اس میں سختیاں، جیل، سزائیں موجودہ حکومت نے شامل کردی ہیںجس پر اس وقت خود حکومت کے اپنے اٹارنی جنرل بھی متفق نہیں، کم از کم آرڈیننس سے قبل حکومت انہیںسے قانونی نکات پر مشورہ کرلیتی۔ عدالت کا حالیہ بیان بہت اہم ہے کہ ’’کیوںنہ اس پیکا قانون کو ہی ختم کردیا جائے ‘‘ اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے کہ اس کالے قانون ہی منسوخ کردے۔ جب یہ ایکٹ 2016ء میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیرقیادت مسلم لیگ ن کی حکومت نے بنایا تھا۔ حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے احتجاج کے درمیان پارٹی نے متنازعہ بل کو آگے بڑھانے کیلئے قومی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کا استعمال کیا تھا۔ پیروڈی یا طنز پر مبنی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی اسکے دائرے میں آ گئے۔ اس نے وفاقی افسران کو جرم کی تفتیش کیلئے کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس (موبائل فونز اور کمپیوٹرز) کو غیر مقفل کرنے کی اجازت بھی دی۔ موجودہ حکومت نے فوج اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کا احاطہ کرنے کیلئے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر کے، پیکا کو مزید سخت بنا دیا۔ اور آرڈیننس کے تحت الزامات عائد کرنے والوں کو چھ ماہ کیلئے ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کسی بھی شخص یا ادارے کو بدنام کرنے پر جیل کی سزا بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ کر دی گئی ہے۔''کسی بھی شخص کی تعریف میں کسی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن یا افراد کی باڈی کو شامل کیا گیا ہے، چاہے وہ شامل ہو یا نہ ہو، ادارہ، تنظیم، اتھارٹی یا حکومت کی طرف سے کسی قانون کے تحت قائم کیا گیا ہو۔الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) آرڈیننس، 2022 ء میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتوں کو چھ ماہ میں مقدمات کی سماعت تیز کرنی ہوگی اور کسی بھی زیر التواء مقدمے کی ماہانہ پیش رفت رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ کو پیش کرنی ہوگی جس میں معاملے کو ختم کرنے میں ناکامی کی وجوہات بتائی جائیں گی۔ مزید یہ کہ شکایت کنندہ ضروری نہیں کہ وہ متاثرہ شخص یا ادارہ ہو، وہ عوام کا کوئی بھی رکن ہو سکتا ہے، نئے قانون کو غلط استعمال کیلئے کھلا کر دیا گیا ہے۔ نظرثانی شدہ قوانین میں ''پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کیخلاف مواد'' کے ساتھ ساتھ ایسا مواد بھی شامل ہے جو اخلاقیات کو ''تباہ'' کر سکتا ہے اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وزیر قانون جن کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر پہلے بھی عدالتی ریمارکس موجود ہیں۔ انہوں نے وزیر اطلاعات کی مشاورت سے یہ کالا قانون پیش کیا ہے ۔کسی شخص کو بدنام کرنے کہ سہرا اسوقت حکومت سمیت تمام ہی سیاسی اکابرین کے سر جاتا ہے جسکا کوئی ثبوت نہیںہوتا اس قانون میں اگر کسی کو بلا ثبوت بھی بدنام کیا گیا تو پہلے تو اسے گرفتار ہوکر کم از کم چھ ماہ جیل یاترا کرنا ہوگی چھ ماہ بعد شنوائی ہوگی پھر شائد اگر الزام سچ ہے تو رہائی ملے گی۔دراصل ہر حکومت انتخابات کے قریب اپنے آپکو الزامات سے محفوظ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔ قانونی طور پر موجود پرنٹ میڈیا ، اور الیکٹرانک میڈیا تو موجود ہے دراصل سوشل میڈیا بالکل ہی بے لگام اور درجاتی طور پر میڈیا کے سب سے زیادہ مشکوک درجے پر فائز ہے ۔ جسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی میڈیا تاریخ گواہ ہے ضیاء الحق مرحوم کی سخت مارشل لا ء کے دور میں بھی صحافیوںنے جیل جاکر ، کوڑے کھاکر ، جیل میں بھوک ہڑتالیںکرکے مارشل لاء حکومت کو مجبور کردیا تھا کہ انکے مطالبات منظور کئے جائیں۔ لیکن اسوقت یہ بات خوش آئند ہے پیکا کی نئی شکل پر صحافتی تنظیمیں ، اے پی این ایس اور مدیران سب متحد ہیں‘ اس لئے خیر کی توقع رکھیں۔