وزیراعظم عمران خان دو روزہ دورے پر روس گئے ہوئے ہیں۔ 23 اور 24 فروری کو ہونے والا یہ دورہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی دعوت پر کررہے ہیں۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے تاہم اس سلسلے میں یہ جو کہا جارہا ہے کہ یہ کسی بھی پاکستانی رہنما کا گزشتہ 23 برس میں روس کا پہلا دورہ ہے، یہ بات حقائق سے متصادم ہے۔ مئی 2011ء میں آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے روس کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا جہاں اس وقت کے روسی صدر دمتری میدویدف سے ان کی ملاقات اور مذاکرات ہوئے تھے۔ دونوں رہنماؤں کی کریملن میں ہونے والی ملاقات کے دوران باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ توانائی، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، دھاتی صنعت اور زراعت سے متعلق مشترکہ پراجیکٹس شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ اس دوران وسطی ایشیا جنوبی ایشیا 1000 یعنی کاسا 1000 منصوبے کے تحت کرغیزستان سے تاجکستان اور افغانستان کے راستے پاکستان کو پانی سے پیدا کی گئی بجلی فراہم کرنے اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹاپی گیس منصوبے کے حوالے سے جو بات چیت ہوئی تھی اس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو ایک خاص حد تک پورا کرنے کے قابل ہو جائے گا لیکن افسوس کہ یہ دونوں منصوبے آج تک مکمل نہیں ہوسکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آصف زرداری سے 37 سال پہلے 1974ء میں روس کا آخری سرکاری دورہ بھی اسی جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا لیکن اس وقت اس ملک کا نام یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس (یو ایس ایس آر) یا سوویت یونین تھا جو 25 دسمبر 1992ء کو صدر میخائل گورباچوف کے استعفیٰ کے ایک روز بعد باضابطہ طور پر تحلیل ہوگیا اور اس سے وابستہ 15 ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ ان ریاستوں میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ تھی جو بعد میں روسی فیڈریشن یا روس کے طور پر وجود میں آئی اور بورس یلسن اس کے پہلے صدر بنے۔ ذوالفقار بھٹو نے صدرِ مملکت کے طور پر 2 سے 5 مارچ 1972ء تک روس کا دورہ کیا تھا اور اس دورے سے پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی۔ پھر 1974ء میں انھوں نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت میں دوبارہ سوویت یونین کا دورہ کیا ۔ ان دوروں نے پاکستان اور سوویت یونین کے مابین تعلقات کو فروغ دیا اور 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی سوویت یونین سے تجارت کا حجم پہلے کی نسبت تین گنا ہوگیا۔ 1973ء میں کراچی میں بننے والی پاکستان سٹیل مل بھی سوویت یونین تعاون ہی سے قائم کی گئی۔
بات عمران خان کے دورۂ روس سے شروع ہوئی تھی لیکن ایک غلط فہمی کی وضاحت کرتے ہوئے کسی اور طرف نکل گئی۔ اس غلط فہمی کو دور کرنا اس سلسلے بھی ضروری تھا کہ بی بی سی جیسے اہم ادارے نے بھی اپنی خبر میں حالیہ دورے سے متعلق یہی لکھا ہے کہ یہ ’گذشتہ 23 برسوں میں کسی پاکستان رہنما کا روس کا پہلا دورہ ہے‘۔ عمران خان کے حالیہ دورے پر بات کو آگے بڑھانے سے پیشتر ایک اور غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ وہ غلط فہمی پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے متعلق ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان نے 1949ء میں سوویت یونین کی دورے کی دعوت ٹھکرا کر امریکا کی دعوت قبول کی تھی اور اس کی وجہ سے پاکستان بہت سے مسائل کا شکار ہوگیا۔ یہ موضوع بہت طویل ہے اور اس پر بہت سا مواد موجود ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ تحقیق کرنے یا پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اس لیے وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین (Harry S Truman) کی طرف سے دورے کی دعوت دسمبر 1949ء میں ملی تھی اور 3 مئی 1950ء کو وہ اس دورے کے لیے امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچے تھے۔ مئی اور جون 1950ء میں لیاقت علی خان نے امریکا کے ساتھ ساتھ کینیڈا کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے وہاں جو تقریریں کیں وہ کتابی شکل میں Pakistan: The Heart of Asia کے نام سے 1951ء میں ہارورڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے شائع ہوئیں۔ پاکستان میں پیراماؤنٹ پبلشنگ انٹرپرائز نے ساٹھ سال بعد 2011میں تقریروں کا یہ مجموعہ دوبارہ شائع کیا اور اس کے لیے سابق سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی سے ایک پیش لفظ بھی لکھوایا۔ لیاقت علی خان 1949ء میں سوویت یونین کیوں نہ جاسکے اس کا احوال ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کی زبانی سن لیجیے:
’’2 جون 1949ء کو تہران میں تعینات سوویت ناظم الامور علی علیوف نے راجا غضنفر علی خان کے ذریعے اپنی حکومت کا دعوت سے متعلق پیغام دیا جسے فوراً قبول کرلیا گیا۔ پاکستان نے سوویت معاشی منصوبہ بندی اور صنعتی و زرعی ترقی کے مطالعے کے لیے بیس روزہ دورے کی مجوزہ تاریخِ آغاز 20 اگست 1949ء مقرر کی۔ اس کے بعد سے سوویت یونین نے اس حوالے سے ٹال مٹول شروع کردی۔ یو ایس ایس آر کی طرف سے 20 کی بجائے 15 اگست 1949ء کو دورہ شروع کرنے کی تجویز دی گئی۔ تاریخ کی اس تبدیلی کے لیے کوئی قابلِ فہم جواز نہیں دیا گیا۔ پاکستان نے تجویز دی کہ 14 اگست کو یومِ آزادی کی تقریبات میں وزیراعظم کی شرکت کے پیش نظر دورے کی تاریخ 18 اگست مقرر کی جائے۔ سوویت یونین کی طرف سے جواب آیا کہ اس کے حکام کی گرمائی تعطیلات کی وجہ سے دورہ اکتوبر یا نومبر تک ملتوی کردیا جائے۔ بعدازاں، پاکستان نے 7 نومبر 1949ء کی تاریخ تجویز کی۔ اس بار سویت یونین نے جواب دیا کہ وزیراعظم مجوزہ تاریخ سے پہلے آ جائیں اور دورے سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔ پاکستان نے شعیب قریشی کو روس کے لیے اپنا پہلا سفیر مقرر کیا (سوویت یونین کی طرف سے ان کے نام کی منظوری 28 اکتوبر 1949 ء کو دی گئی)۔ لیاقت علی خان نے فوری طور پر شعیب قریشی کو ماسکو روانہ کردیا اور کہا کہ وزیراعظم براستہ تہران 6 نومبر کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے بعد سوویت یونین کی اس معاملے میں دلچسپی ماند پڑ گئی اور رابطوں کا مقام تہران سے نئی دہلی منتقل کردیا گیا۔ پھر سوویت یونین کی طرف سے کہا گیا کہ چھٹیوں کی وجہ سے 6 نومبر مناسب تاریخ نہیں، اور مجوزہ دورہ پاکستان کے لیے سوویت سفیر کی تقرری تک موقوف کردیا جائے۔ اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔‘‘ (جاری ہے)
پاک روس تعلقات: غلط فہمیوں کا ازالہ
Feb 24, 2022