پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما، سابق وزیر داخلہ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر کالم نگار سینیٹر رحمان ملک 70 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ کرونا میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے بُری طرح متاثر ہو گئے تھے اور کئی روز تک وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔ رحمان ملک کے انتقال پر حکومتی اور سیاسی حلقوں نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کی ہے۔
رحمان ملک نے بڑی متحرک اور فعال زندگی گزاری۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ وزارتِ داخلہ کے محکمہ امیگریشن میں خدمات انجام دیتے رہے۔ 1993ء سے 1996ء تک وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ ایک دبنگ آفیسر تھے۔ اپنے عرصۂ ملازمت کے دوران انہوں نے اہم شخصیات کے خلاف کرپشن کے کیسز تیار کیے اور انہیں گرفتار کروایا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو رحمان ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جس کے خلاف انہوں نے اس وقت کے صدر محمد رفیق تارڑ کے نام 200 صفحات پرمشتمل ایک خط بھی تحریرکیا۔ اس دوران وہ برطانیہ چلے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے ہی جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ رحمان ملک نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہ صرف اپنی اقامت گاہ پر قیام بلکہ پیپلزپارٹی کا سیکرٹریٹ قائم کرنے کی بھی سہولت فراہم کی۔ رحمان ملک بے نظیر کی سکیورٹی کے امور کی بھی نگرانی کرتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان پر اس قدر اعتماد تھا کہ لندن میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاقِ جمہوریت کیا تو یہ تاریخی تقریب بھی رحمان ملک ہی کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان مصالحت کروانے میں بھی رحمان ملک کا اہم کردار تھا اور انہی کی کوششوں سے قومی مصالحتی آرڈیننس جاری ہوا تھا۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے وقت رحمان ملک ہی ان کے چیف سیکورٹی ایڈوائزر تھے جو انکے ساتھ ہی ملک واپس آئے۔رحمان ملک پیپلز پارٹی کے ان گنے چنے رہنمائوں میں سے تھے جن کا محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مشیر داخلہ مقرر کئے گئے اور سندھ سے سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد انہیں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپا گیا۔ رحمان ملک ملکی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات کے عینی شاہد بھی تھے۔ وہ ملک کے داخلہ او ر خارجہ امور پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔بھارت ، کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے ان کے تجزیے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔انہوں نے ’’مودی وار ڈاکٹرائن‘‘ ، ’’انڈیا اینٹی پاکستانی سینڈروم‘‘ اور دیگر کتابیں بھی لکھیں۔ حکومت نے انہیں سرکاری اعزازات ’’ستارہ شجاعت‘‘ اور ’’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا جبکہ جامعہ کراچی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ اور ڈیلی ’’دی نیشن‘‘ میں شائع ہونے والے رحمان ملک کے کالم حکومتی و سیاسی حلقوںمیں بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ رحمان ملک کی وفات سے پیپلز پارٹی اپنے ایک اہم رہنما اور ملک ایک مستعد و فعال سیاستدان اور ایک محب وطن دانش ور سے محروم ہو گئی ہے۔ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ رحمان ملک کے انتقال پر مرحوم کے لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے۔