وزیراعظم عمران کی مودی کو ٹی وی پر مناظرہ کی پیشکش

Feb 24, 2022


وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تنازعات کے حل کیلئے ٹی وی پر مناظرہ کی پیشکش کر دی۔ گزشتہ روز روسی ٹی وی ’’آرٹی‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی تحریک کے بانی نازیوں سے متاثر تھے۔ میں جب اقتدار میں آیا تو سب سے پہلے بھارت کو امن کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی مگر بھارت نے ہماری پیشکش مسترد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تسلیم شدہ معاملہ ہے جس کا حل ضروری ہے۔  موجودہ بھارت گاندھی اور نہرو کا نہیں بلکہ مودی کا بھارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی تنازعہ کو جنگ کے ذریعے حل کرنا بے وقوفی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکہ کو افغان جنگ سے کیا حاصل ہوا۔ اگر برصغیر کے ایک ارب سے زیادہ لوگ مباحثے کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرلیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ 
اس میں تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ گاندھی اور نہرو کے سیکولر ہندوستان کے ماتھے پر ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار نے ہندوتوا کا کلنک کا ٹیکہ لگا کر اسے خالص ہندو ریاست کے قالب میں ڈھال دیا ہے جہاں ہندو دلتوں سمیت نہ کسی اقلیت کو جان مال کا تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی دوسرے مذاہب کے ہندوستانیوں کو اپنی عبادات کیلئے مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور مسلمان تو مودی سرکار کے خاص ہدف پر ہیں اور اسی بنیاد پر مودی سرکار نے تنازعۂ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کیلئے پانچ اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم کرنیوالی آئین کی دفعہ 370 اور 35اے کو بھارتی آئین سے حذف کرایا اور اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین میں ضم کر دیا۔ 
نریندر مودی کا تو پاکستان اور مسلم دشمنی کا باقاعدہ پس منظر انکے ٹریک ریکارڈ پر موجود ہے جنہوں نے 1971ء میں بھارتی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے سرگرم کارکن ہونے کے ناطے اسکی پاکستان توڑو تحریک میں حصہ لیا جس کا وہ بطور وزیراعظم متعدد مواقع پر فخریہ اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھارتی مسلمانوں پر حملے اور مختلف وارداتوں میں ان کا قتل عام کرینوالے ہندو انتہاء پسندوں کی باقاعدہ سرپرستی کی جس پر امریکہ نے انہیں دہشت گرد کے ٹائٹل سے نوازا اور انکے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت اسکے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کی حکمت عملی طے کی اور بھارتی فوج سے کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں کی جانب گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کرایا اور کشمیر اور پانی کے دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے ان تنازعات کو بڑھانے کی اشتعال انگیز پالیسی اپنائی جس کے تحت مون سون کے علاوہ بھی پاکستان پر آبی دہشت گردی مسلط کی جانے لگی اور کنٹرول لائن پر پاکستان کی فضائی حدود میں ڈرونز بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو  27 فروری 2019ء کو پاک فضائیہ کی جانب سے دو بھارتی طیارے فضا میں ہی میں اچک کر مار گرانے پر منتج ہوا۔ 
بے شک وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد مودی سرکار کو خیرسگالی کا پیغام بھجوایا اور اسے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر اور دوسرے دوطرفہ تنازعات کے حل کی راہ نکالنے کی پیشکش کی جبکہ 2019ء کے بھارتی انتخابات کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ نریندر مودی دوسری ٹرم کیلئے وزیراعظم منتخب ہو گئے تو اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ نکل آئیگا۔ اسکے برعکس نریندر مودی نے دوسری ٹرم کیلئے قطعی اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے ساتھ مخاصمت بڑھانے والی پالیسی اختیار کرلی جس کا آغاز انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان کو مدعو نہ کرنے کی صورت میں کیا۔ اسکے بعد مودی سرکار کا اب تک کا عرصۂ اقتدار پاکستان اور مسلم دشمنی کی بے شمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے جس میں کشمیر کو ہڑپ کرنے کے علاوہ کشمیر کی غالب اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے بھارت کے شہریت ایکٹ میں لائی گئی ترمیم اور بھارت میں ہندو انتہاء پسندوں کو سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں پر حملوں‘ بلووئوںاور انکے مذہب کی توہین و تحقیر کی کھلی چھوٹ ملنے کے بے شمار واقعات شامل ہیں۔ مودی سرکار نے کشمیر کی صورتحال پر عالمی برادری کی تشویش‘ مذمتی قراردادوں اور سلامتی کونسل سمیت نمائندہ عالمی اداروں اور منتخب فورموں کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کے تقاضوں کو آج تک درخور اعتناء نہیں سمجھا اور گزشتہ 934 روز سے اس نے مقبوضہ وادی کو اپنے دس لاکھ فوجیوں کے ذریعے محصور کیا ہوا ہے جنہوں نے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 
مودی سرکار کی پیدا کردہ یہ صورتحال یقیناً علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے اور اس معاملہ میں مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے متحرک ہونے اور بھارتی مسلمانوں پر ہندو انتہاء پسندوں کے مظالم بند کرانے کیلئے مودی سرکار پر دبائو ڈالنے کی ضرورت ہے جس کیلئے بھارت کا اقتصادی اور سفارتی بائیکاٹ بھی ایک مؤثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ روس کے موقع پر روسی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران مسئلہ کشمیر اور بھارت کی مودی سرکار کے ہندو انتہاء پسندی پر مبنی نظریہ کو اجاگر کرکے عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کی جانب متوجہ کیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دورۂ روس کے موقع پر ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے اصولی موقف پر روسی حمایت بھی حاصل ہو گئی تو اس سے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی مدد ملے گی جو خطے کے امن و سلامتی اور خوشحالی کیلئے مثبت پیش رفت اور دوررس نتائج کی حامل ہوگی۔ 

مزیدخبریں