جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں


ایک وقت تھا کہ لاہور کی شناخت یوں کرائی جاتی تھی کہ ملتان کے مضافات میں ایک قصبہ ہے۔اور اب اسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔آخر کیوں؟میں نے اسے ہر آنکھ سے دیکھا ہے۔اس کے ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کے کام بھی کیے ہیں،اسٹیشن کے نزدیک فٹ پاتھوں پر راتیں بھی گزاریں،اسٹیشن کے گندے ہوٹلوں میں برتن بھی صاف کیے ۔پرانے جی ٹی ایس کے اڈے کی گندگی بھی دیکھی ہے،بادامی باغ میں گندگی میں کھڑی ہوئی بسوں میں بھی سفر کیا،شاہی محلے کو بھی دیکھا۔ مسجد وزیر خان ،لوہاری گیٹ ،کرشن نگر ،مغلپورہ بھی رہا اور شاہد رہ و شادمان میں بھی۔پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ بھی کیا،الحمرا آرٹس کونسل میں ڈرامے بھی دیکھے،انار کلی ،بھاٹی،اردو بازار کے چکر بھی لگائے۔سمن آباد ،ماڈل ٹاؤن ،جوہر ٹاؤن ،ڈیفنس ، ٹاؤن شپ اور ٹھو کر نیاز بیگ میں بھی رہنے کا اتفاق ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے مشہور زمانہ ہوسٹل نمبر 7 اور 10 کے علاوہ منصورہ میں بھی کئی سال گزارے ، اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تقریریں بھی سنیں۔ مولانا مودودی صاحب کو ملنے سننے ،دیکھنے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں بھی دن گزرے۔ میں نے داتا دربار ، جہانگیر کے مزار، میانی صاحب قبرستان میں غازی علم الدین کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھی۔ بادشاہی مسجد میں کئی بھی نمازیں پڑھیں اور علامہ اقبال کے مزار پر بھی دعائیں کیں۔ گرجے بھی دیکھے اور چرچ بھی۔شالیمار باغ بھی گھومے اور بارہ دری راوی کی بھی سیر کی، اچھرہ اور لبرٹی مارکیٹ میں شاپنگ بھی کی۔قلعہ لاہور میں شاہجہاں اور نور جہاں کے قصے سنے اور راوی کو بہتا بھی دیکھا۔واپڈا ہاؤس میں کھانے اور سامنے چڑیا گھر میں مکئی کے بھنے ہوئے دانے بھی کئی بار کھائے۔گورنر ہاؤس ، سٹاف کالج اور نیپا بھی گئے ، ایچی سن کالج کے تعلیمی ماحول سے فائدہ اُٹھایا اور لمزکے پروفیسروں کے پر مغز لیکچر سنے ،ایف سی کالج کا کھلا میدان دیکھا اور ساتھ پی سی ایس آئی آر کے ریسٹ ہاؤس میں رات بھی گزاری ،صبح شملہ پہاڑی دیکھی ،پرل کانٹیننٹل اور اس طرح کے فائیو سٹار ہوٹلوں کے مفت کھانے ابھی نہیں بھولے پٹھانوں کے سمگلنگ سے بھرے ہوئے گودام بھی دیکھے اور شاہ عالمی بھی۔ڈرائی پورٹ بھی چند دن گزارے، لاہور کی ابھرتی ہوئی صنعتیں بھی دیکھیں اور ایوان صنعت و تجارت میں اپنے خلاف کاروباری طبقات کی آوازیں بھی سنیں۔
ہمارا تعلق اس جنریشن سے ہے جس نے پرانا لاہور بھی دیکھا اور نیا بھی۔رنگ روڈ بھی دیکھی۔ لاہور کے مشہور پارک لارنس پارک(جناح)،ریس کورس گراؤنڈ،ماڈل ٹاؤن پارک ،سفاری پارک ،جلو پارک اور علامہ اقبال پارک میں اکثر سیر کی۔واہگہ بھی دیکھا،ہرن مینار بھی، یادگار پاکستان بھی گھومے اور مال روڈ پر بھی۔لاہور عجائب گھر میں اس شہر کی تاریخ، لاہور کے کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل کالج جیسے خوبصورت ادارے اور ہسپتالوں کا پھیلا ہوا نیٹ ورک دیکھا۔یتیم خانہ اورچوبرجی لاہور کی پہچان۔کنیئرڈ کالج کی رونقیں بھی دیکھیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس دیکھی،اور ہندوستان سے تجارت کا مال بھی۔پرانا ائیر پورٹ بھی دیکھا اور نیا بھی۔نہر والا پل بھی دیکھا اور انڈر پاسزز بھی۔ ایوان عدل میں وکیلوں کی گھن گرج بھی سنی اور عدالتی کاروائی بھی۔بطور سائل بھی پیش ہوئے اور ایک وقت تھا کہ سائل سامنے پیش ہوتے تھے اور وکیل سر جھکا کر مائی لارڈ کہتے تھے۔جدید پییکجز مال میں کافی پی اور نشاط امپوریم میں چائے، لاہور جم خانہ میں مفت کے کھانے کھائے اور لاہور رائل پام اور گالف کلب ریلوے میں باربی کیو، فورٹ ریس سٹیڈیم میں شاپنگ کی اور قذافی سٹیڈیم میں کھیل اور کھلاڑی بھی۔اس شہر کو ہر رنگ و روپ میں دیکھا۔لاہور یوں کا میرے ذہن میں جو نقشہ بنتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔
لاہوری زندہ دل لوگ ہیں۔انھیں جینے کا ڈھنگ آتا ہے۔ہر مشکل میں آسانی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔لاہوریوں نے لاہور کو علم و فنون کا مرکز بنایا۔یہ انکی لگن ،جذبہ اور ولولہ ہے کہ اس شہر میں علم کے خزانے مدفون ہیں۔یہی اس شہر کی پہچان ہے۔ لاہورئیے متحرک ہیں،جدت پسند،اور آگے بڑھنے کیلئے ہر قسم کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔اس شہر کے لوگ محنتی،جفاکش اور انٹرپرائزنگ ہیں۔لاہورئیے ہر قسم کے علاقائی و مالی تعصب سے آزاد ہیں۔ہر شخص اپنے حال میں خوش اور مست رہتا ہے۔اپنی غربت کا ذمہ دار کسی دوسرے کو نہیں سمجھتا۔کھانے پینے کے شوقین ،اور سوشل لائف کے دیوانے۔ ہر حالت میں خوش رہنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے ہیں۔کھاتے وقت کوئی کچھ نہیں سوچتا بس ملنا چاہئے۔ لاہوری کسی کا کام روکتے نہیں۔تحفے تحائف دینا اور لینا ان کی پرانی عادت ہے ۔یہ ان کا بڑا پن ہے۔خوش رکھیں اور خوش رہیں۔لاہور کا مخصوص طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مغلوں کے اصل وارث وہی ہیں۔بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ اس شہر میں ہر طرح کا آدمی ملے گا،درویش بھی،مست ملنگ بھی،صوفی بھی، ملا بھی مگر سب پیار محبت اور مل جل کر رہنے کے عادی ہیں ۔فرقے اپنی جگہ انسانی قدریں اپنی جگہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کرتے۔اس شہر میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔یہاں آپکی نظر کا امتحان ہوتا ہے کہ کس طرح کے لوگ آپ کے حلقہ احباب میں شامل ہوتے ہیں۔یہاں نو دولتیے اب کثیر تعداد میں ہیںجو آپکو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں لہذا احتیاط ضروری ہے۔ لاہور اور لاہورئیے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔اور ہرفیلڈ میں بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتے ہیںمیں نے کچھ عرصہ پنجاب سیکرٹریٹ میں نوکری کی۔اکثر پریشان رہتا تھا۔میرا ایک اسٹینو گرافر اندرون شہر کا تھا ۔مجھے پریشان دیکھ کر مسکرا کر کہتا سر لاہور رہنا ہے توکھل کر کھاؤورنہ یہاں سے چلے جاؤ۔ میں یہ کام نہ کر سکا اور اسی لئے کہیں ٹک بھی نہ پایا۔اگر مشورہ مان لیتا تو زندگی بھی آرام سے گزرتی دریائے سندھ کے کنارے ریتلی زمین پر نہ بیکار پھرتا۔اب شاید صرف پچھتاوے ہیں ۔
بہر حال سچ پوچھو تو لاہور اور لاہورئیے مجھے بہت پسند ہیں۔اسی لیئے کہتے ہیں لاہور لاہور اے جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔

ای پیپر دی نیشن