بینظیر بھٹو شہید کے با اعتماد اور وفادار ساتھیوں میں شمار ہو نے والے سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک انتقال کر گئے ، انہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت اہم اور بہادرانہ کردار ادا کیا تھا۔سابق وزیر داخلہ کئی کتب کے مصنف تھے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)میں ان کی خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ شجاعت اور نشان امتیاز سے دیا گیا ۔رحمان ملک پیپلز پارٹی کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جن کا شمار سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔ سینیٹر رحمن ملک حالیہ دنوں علالت کے باعث اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے،ان کی عمر 70سال تھی۔ان کی نماز جنازہ آج اسلام آباد میں ادا کی جائے گی اور انہیں اسلام آباد میں ہی دفن کیا جائے گا۔
رحمن ملک کو گزشتہ ماہ جنوری میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے باعث ان کے پھیپھڑے شدید متاثر ہوگئے ۔فروری کے اوائل میں انہیں طبیعت بگڑنے پراسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔ کورونا کے علاج کے بعد وہ گھر پر منتقل ہو گئے تھے مگر بعد میں انہیں دوبارہ وینٹیلیڑ پر منتقل کرنا پڑا۔رحمن ملک کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے ترجمان ریاض علی طوری نے کہا کہ یہ صدمہ میرے کیلئے ناقابل بیان ہے، آج میں ہمیشہ کے لیے ایک عظیم دوست اور مہربان سرپرست سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا ہوں۔ رحمن ملک نے سوگواروں میں بیوہ اور 2بیٹے چھوڑے ہیں۔
سینیٹر رحمن ملک 12دسمبر 1951کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی شماریات کی ڈگری حاصل کی، سیاست سے آنے سے پہلے وہ ایف آئی اے کے سربراہ رہے۔رحمن ملک بینظیر بھٹو شہید کے با اعتماد اور وفادار ساتھیوں میں سے تھے انہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت اہم اور بہادرانہ کردار ادا کیا تھا۔ بینظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی پر وہ ان کی ثیف آف سکیورٹی مقرر تھے۔ محترمہ کی شہادت پر اس کیس کی تمام تحقیقات کی وہ خود نگرانی کرتے رہے۔اس سانحہ پر ان کی مرتب کردہ ایک رپورٹ 27 دسمبر2021 ء کو نوائے وقت کے خصوصی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ رحمان ملک کو 2008کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنے پر وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ،حالانکہ وہ اس وقت وہ رکن پارلیمان نہیں تھے۔ انھیں داخلی امور کے حوالے سے وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا ۔وہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت 2008 سے 2013 تک وفاقی وزیر داخلہ رہے۔بعد میں سپریم کورٹ کی طرف سے دوہری شہریت کے معاملے پر انھیں اس وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد رحمن ملک کو دوبارہ داخلہ امور پر وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا۔وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر2مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔رحمان ملک نے تعلیم مکمل کر کے وزارت داخلہ کے محکمہ امیگریشن میں ملازمت اختیار کی اور پھر یہاں سے ترقی کرتے ہوئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت، 1993سے 1996تک، میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات کیے گئے۔رحمان ملک کے دور میں لوگوں کے دلوں میں ایف آئی اے کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ لوگ بظاہر اس سے خوفزدہ تھے۔
1996میں جب اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس کے بعد سب سے پہلے اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے غلام اصغر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رحمان ملک کو مبینہ کرپشن کے کیسز میں گرفتار کر لیاگیا۔ایک سال تک رحمٰن ملک جیل میں رہے اور جب پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی تو وہ بیرون ملک چلے گئے۔میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے رحمان ملک کو ایف آئی اے کی نوکری سے برطرف کر دیا۔ رحمان ملک نے اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو دو سو صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تھا جس میں شریف خاندان کی کرپشن کا ذکر کیا تھا۔برطانیہ میں پناہ لینے کے بعد رحمان ملک نے وہاں اپنی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی بنا لی۔ 1999میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد جب بینظیر بھٹو جلاوطنی میں تھیں تو اس وقت بھی انھوں نے بینظیر کی سکیورٹی کے معاملات میں ان کی معاونت کی۔انھوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سیاسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر آمادہ کیا۔بینظیر بھٹو کو رحمان ملک پر اتنا اعتماد تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان میثاق جمہوریت کا معاہدہ بھی رحمان ملک کے گھر پر ہوا جس پر دونوں سابق وزرائے اعظم اور دیگر جماعتوں نے دستخط کیے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے درمیان مصالحت کروانے میں بھی رحمن ملک کا اہم کردار رہا ہے اور اسی کی بدولت قومی مصالحتی آرڈیننس NRO بھی جاری ہوا جس کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں مقدمات ختم کر دیے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا۔اکتوبر 2007میں جب بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو رحمن ملک ان کے ساتھ بطور چیف سکیورٹی افسر آئے۔ 27 دسمبر 2007کو لیاقت باغ کے باہر جب بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ ہوا تو اس وقت بھی رحمان ملک بینظیر بھٹو کے ساتھ تھے اور اس واقعے کے بعد ان کے کردار پر کافی انگلیاں اٹھائی گئیں ۔رحمن ملک چار کتابوں کے مصنف تھے جن میں مودی وار ڈاکٹرائن ، انڈیا اینٹی پاکستان سینڈروم ،داعش اور ٹاپ 100انویسٹی گیشنز شامل ہیں۔ انکی خدمات پر انہیں جامع کراچی نے پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛