میاں غفار احمد
ایک مرتبہ پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات سیکرٹریز کو مکمل اختیارات دے دئیے گئے ہیں اور یہ وہی نوید ہے جو پہلے بھی کئی بار سنائی جا چکی ہے مگر اب تک حقیقت میں جو بہترین فیصلہ ہوا ہے وہ یوں ہے کہ پنجاب کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کا بجٹ علیحدہ ہوچکا ہے اور اب جنوبی پنجاب کا بجٹ کسی بھی طور اَپر پنجاب پر خرچ نہیں ہوسکے گا ۔ اس فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے اور فنڈز کی فراہمی بھی جاری ہے۔ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت پنجاب کے جنوبی پنجاب میں دو سیکرٹریٹ پہلے سے ہی کام کررہے ہیں جس سے عملاً صوبے کی حدود قیود کا بھی تعین تقریباً ہو چکا ہے لہٰذا ملکی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے لکھے گئے خط پر مثبت رد عمل دیتے ہوئے کمیٹی تشکیل دیں جو کہ آئین کی روشنی میں مزید کام جاری رکھ سکے اور جلد از جلدجنوبی پنجاب کے علیٰحدہ صوبے کے حوالے سے آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کرے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے سر خرو ہوسکیں ورنہ آئندہ الیکشن میں اس خطے کے عوام کا علیٰحدہ صوبے کے حوالے سے اکلوتا مطالبہ سیاسی جماعتوں کیلئے تباہی کا باعث بن جائے گا ۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اس خطے کے ووٹروںکی اکثریت سے ہی وزیر اعظم اور وزیر اعلی بنے ہیں۔ رہا جنوبی پنجاب سول سیکریٹریٹ کا معاملہ تو ملتان اور بہاولپور کے بعد اس کی فرنچائز تونسہ شریف میں بھی قائم کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ تونسہ حال ہی میں ’’شریف‘‘ نہیں ہوا بلکہ اس کا ہمیشہ ہی سے پورا نام تونسہ شریف تھا لہٰذا یہ عرصہ دراز سے شریف ہی چلا آ رہا ہے۔
جلال پور پیر والا میں مسلم لیگی رہنما حمزہ شہباز کا جلسہ ایک بڑا شو تھا جو کہ سیاسی سرگرمیوں میں حدت کا اشارہ ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ عوام سے رابطے ہر پارٹی ہی مضبوط کررہی ہے اور انہی ایام میں بلاول بھٹو زرداری بھی جنوبی پنجاب کے دورے پر آئے ۔ وزیر اعظم کا بھی ملتان کا دورہ متوقع تھا اور شیڈول کے مطابق انہوں نے صحت کارڈ تقسیم کرکے ملتان آنا تھا جو دورۂ روس کی وجہ سے منسوخ ہوگیا تاہم شیڈول کے مطابق صحت کارڈ کا ملتان میں اجراء کردیا گیا ہے ۔ صحت کیلئے حکومت پنجاب نے اپنے وسائل سے 400 ارب روپیہ مختص کیا ہے اور ملتان ڈویژن بھی اب اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو صحت کی مفت سہولیات سے فیض یاب ہوں گے ۔ یہ اسلامی فلاحی ریاست کے حوالے سے ایک منفرد اور بہترین اقدام ہے جسے آئندہ آنے والی کوئی حکومت ختم نہ کرسکے گی تاہم اگر اس میں شفافیت برقرار ہی تو ۔ کیونکہ شکایا ت کا سلسلہ ابھی سے شروع ہوچکا ہے اور اس ملک میں ہر پالیسی کے پیچھے آخر میں کسی نہ کسی کی سہولت کاری ہی نکلتی ہے اللہ کرے اس منصوبے میں ایسا نہ ہو اور ہیلتھ کارڈ کے سہولت کار عوام ہی رہیں چند گھر پھر سے فیض یاب نہ ہوجائیں ۔ احمد پورشرقیہ اور سیالکوٹ کے بعد مذہبی جنونیت اور عدم برداشت کا ایک اور واقعہ خانیوال کے علاقے تلمبہ میں سامنے آیا ہے۔ ہماری مسجد اور محراب سے جو نفرت اور فرقہ واریت سالہا سال سے اسلام کے نام پر پھیلائی جارہی ہے اور جس طرح سے مسجد ومنبر کا اپنے اپنے عقائد کی تریج اور دین کی ( نعوذ باللہ ) تقسیم در تقسیم، گروہ بندی کیلئے آزادانہ استعمال کیا جارہا ہے اس کے خوفناک نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔سیالکوٹ کے بعد خانیوال کے علاقے تلمبہ میں بھی مذہبی جنونیت نے ایک ذہنی معذور کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ہم نے تو یہ سن رکھا تھا کہ پاگل، مجذوب اور فاتر العقل شخص پر کوئی شرعی حکم لاگو نہیں ہوتا، سزا کا اختیار اور حد قائم کرنا عوام کا نہیں بلکہ قاضی اور جج کا کام ہے ۔ پھر قرآن مجید کے معاملے میں تو یہ طے ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لے رکھا ہے مگر اس قوم نے بار بار ان حدود وقیود کو توڑا اور وہی کچھ کاٹ رہے ہیں جو سالہا سال سے ہمارے دینی حلقے ان کے ذہنوںمیں بو رہے تھے۔ بیشتر واقعات میں تو بعداز تحقیقات حقائق بالکل ہی مختلف نکلے۔
جنوبی پنجاب میں انتخابی ماحول ابھی سے بن چکا ہے اور بعض امیدوار تو ایک عرصے سے عوامی رابطہ مہم شروع کیے ہوئے ہیں جس میں سابق آئی جی بلوچستان میاں محمد ایوب قریشی سرفہرست ہیں جو گزشتہ دوسال سے مظفر گڑھ میں اپنی مہم چلا رہے ہیں ۔ابھی تک ان کے مقابلے میں کوئی مضبوط نام سامنے نہیں آیا۔دوسری طرف خانیوال میں ایاز خان نیازی بھی سر گرم عملاورجوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ تاہم وہ ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ انہوں نے چئیرمین کا الیکشن لڑنا ہے یا رکن قومی اسمبلی کیلئے پنجہ آزمائی کرنی ہے ۔ قومی حلقے میں ان کا مقابلہ چودھری افتخار نذیر جیسے قد آور اور مضبوط روابط رکھنے و الے سیاستدان سے ہے اورپھر یہ حلقہ جو زیادہ تر آباد کاروں پر مشتمل ہے ، ہمیشہ ہی مسلم لیگ ن کو گڑھ رہا ہے۔
جنوبی پنجاب سے رواں ماہ میں تین بڑے سیاستدان موت کے منہ میں چلے گئے جن میں ملک غلام محمد نور ربانی کھر، میاں عباس قریشی اور شوکت حیات نون شامل ہیں یہ تینوں ہی رواداری اور شرافت کی سیاست کے علمبردار تھے ۔
جنوبی پنجاب کے لوگ ایک مرتبہ پھر تبدیلی کو ضلع ملتان میں مسلم لیگ کے جلسوں سے بریکٹ کررہے ہیں ۔ قبل ازیں بھی شجاع آباد کا جلسہ آخری ثابت ہوا تھا اور میاں نواز شریف کی حکومت پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوگئی تھی۔ ابھی بھی حمزہ شہباز کا جلسہ تبدیلی کی خبریں لیکر آیا ہے اوردلچسپ ترین امر یہ ہے کہ نواز شریف کی پہلی حکومت کا خاتمہ بھی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اس وقت ہوا تھا جب وہ ضلع ملتان میں جلال پور پیروالا اور شجاع آباد میں اپنا جلسہ مکمل کرکے واپس گئے تھے۔اس مرتبہ ضلع ملتان کے اس علاقے میں مسلم لیگ کا جلسہ اس جماعت کے سیاسی اکابرین کیلئے کیا خبر لاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔