گوشہ نشینی کا اصل نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔مزاجاََ ویسے بھی قنوطی ہوں۔متحرک رپورٹنگ کے دنوں میں بھی اقتدار کے کھیل اور اس کے مرکزی کرداروں کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے ’’…کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ والی ناامیدی دل ودماغ میں جاگزیں ہونا شروع ہوگئی تھی۔بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ وسوسوں بھرے دل میں جوخدشات نمودار ہوتے رہے بسااوقات حقیقت کی صورت اختیار کرلیتے۔گزشتہ کئی دنوں سے اب یہ محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا ’’آئینی بندوبست‘‘اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ بالآخر غلط ثابت ہونے کی دعا کے ساتھ التجا یہ بھی کروں گا کہ میرے دل میں امڈتے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔
کہنے کو ہمارا آئین ’’تحریری‘‘ طورپر مرتب ہوا ہے۔آئین کی اس صنف میں ابہام کی گنجائش نکالنا بہت دشوار ہے۔ ایسے آئین کے ہوتے ہوئے بھی لیکن گزرے برس کے اپریل میں تحریک انصاف کے نامزد شدہ ڈپٹی سپیکر نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ’’قومی سلامتی‘‘ کا عذر تراشتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ قاسم سوری کا فیصلہ قبول کرلیا جاتا تو آئندہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی راہ ہمیشہ کے لئے مسدود ہوجاتی۔ شاید اس شق کو ہی آئین سے خارج کرنا پڑتا جو اس تحریک کی راہ بناتی ہے۔
’’آئین کے تحفظ‘‘ کے لئے سپریم کورٹ کو لہٰذا ’’ازخود‘‘ متحرک ہونا پڑا۔روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے بعد بالآخر طے یہ ہوا کہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں ’’باقاعدہ‘‘ جمع کروادی جائے تو اس پر گنتی کروانا لازمی ہے۔قاسم سوری کا فیصلہ واضح الفاظ میں ’’غیر آئینی‘‘ بھی ٹھہرایا گیا۔ آئین کی صریحاََ خلاف ورزی کے باوجود مگر موصوف کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا آغاز نہیں ہوا۔اس سے گریز مستقبل کے سپیکر یا ڈپٹی سپیکرکو حوصلہ دے گا کہ وہ اپنی جماعت سے منتخب ہوئے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد سے بچانے کے لئے کوئی ’’جگاڑ‘‘ ڈھونڈتا رہے۔
وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے بعد آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں کئی ہفتوں تک حکومتی بندوبست منتخب وزیر اعلیٰ کے بغیر چلایا گیا۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ گورنر عمر چیمہ نے ’’گورنر راج‘‘ کا ماحول بنایا۔ وزارت اعلیٰ کے منصب پر حمزہ شہباز تحریک انصاف سے منحرف ہوئے اراکین کی مدد سے فائز ہوئے تو ان کی تقرری بھی بالآخر ’’غیر آئینی‘‘ قرار پائی۔ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والے ’’لوٹے‘‘ٹھہراکر پنجاب اسمبلی میں بیٹھنے کے اہل نہ رہے۔ان کی ’’نااہلی‘‘ کو یقینی بنانے والی وجوہات تفصیلی انداز میں لیکن ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ہیں۔ ان سے خالی کروائی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوگئے جن کی بدولت پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔رواں برس کے آغاز میں پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد مگر چودھری صاحب نے ایوان تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھجوادی۔ اب نئے ایوان کی تشکیل کے لئے انتخاب کا انتظار ہورہا ہے۔اسی باعث محسن نقوی کی قیادت میں ’’نگراں حکومت‘‘ قائم ہوچکی ہے۔ یہ بات مگر طے نہیں ہوپارہی کہ مطلوبہ انتخابات کس تاریخ کو منعقد ہوں گے۔ ’’تحریری آئین‘‘ اگرچہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ انہیں صوبائی اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد آئے 90دنوں میں ہر صورت منعقد ہونا ہے۔
انتخاب کروانا تحریری آئین کے مطابق ’’الیکشن کمیشن‘‘ کی ذمہ داری ہے۔وہ یہ ذمہ داری نبھانے کو نظر بظاہر تیار ہے۔اس کے ساتھ ہی مگر اصرار کررہا ہے کہ صاف،شفاف اور پرامن انتخاب یقینی بنانے کیلئے اسے ریاست کے دیگر اداروں سے فنڈز اور اہلکار میسر نہیں ہورہے۔آئین پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ کو لہٰذا ایک بار پھر ازخود متحرک ہونا پڑا ہے۔
قضیہ طے کرنے کے لئے مگر عزت مآب ججوں پر مشتمل جو بنچ چیف جسٹس صاحب نے تشکیل دیا ہے مختلف النوع اعتراضات کی زد میں ہے۔حال ہی میں وائرل ہوئی ایک آڈیو لیکس نے اس ضمن میں اعتراض اٹھانے کا جواز فراہم کیا ہے۔جو بنچ تشکیل دیا گیا ہے برقرا ررہا تو ایک اور سنگین قضیہ اٹھ کھڑا ہوگا۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب اور سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں تشکیل دئے بنچ کے علاوہ صدر عارف علوی کا رویہ بھی معاملات کو مزید الجھائے جارہا ہے۔ہمارے ’’تحریری‘‘ آئین کے مطابق یہ عہدہ ہر حوالے سے ’’علامتی‘‘ ہے۔عمران خان صاحب کے دیرینہ وفادار ہوتے ہوئے تاہم عارف علوی اپنے قائد کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد مسلسل ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو ’’صدارتی نظام‘‘ کے تحت چلائے ملکوں کے صدور کے لئے مختص ہے۔ عمران خان انہیں مختلف امور میں مداخلت کے لئے براہ راست خط لکھ کر ا کساتے ہیں۔عارف علوی اس کی بابت ’’حاضر جناب‘‘ والی عجلت دکھاتے ہیں۔اپنے قائد کی خوشنودی کو ہمہ وقت بے چین عارف علوی مگر اپنی محدودات بھی خوب جانتے ہیں۔
عمران خان صاحب نے حال ہی میں انہیں ایک اور خط لکھا تھا۔اس کے ذریعے علوی صاحب کو یاد دلایا گیا کہ وہ افواج پاکستان کے ’’سپریم کمانڈر‘‘ بھی ہیں۔ وہ اس عہدے کے اختیار کو بروئے کار لائیں اور حکم صادر کریں کہ عسکری ادارہ اپنے ریٹائر ہوئے کمانڈر جنرل باجوہ کے چند اقدامات اور کلمات کو ’’انکوائری‘‘ کی چھلنی سے گزارے۔علوی صاحب مذکورہ خط کے ذریعے ملی درخواست پر عمل پیرائی سے فی الوقت کنی کترارہے ہیں۔
’’تحریری‘‘ آئین ریاستی عہدوں اور اداروں کے مابین اختیارات اور عملداری کے ’’رقبے‘‘ واضح انداز میں طے کردیتا ہے ۔مقننہ یا پارلیمان مگر ریاست کے نام نہاد’’ستونوں‘‘ کا سب سے کمزور ’’شراکت دار‘‘ رہا ہے۔تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد اسے مزید بے وقعت بنادیا ہے۔ ریاست کے بقیہ ’’ستون‘‘ ہی اب حتمی فیصلہ ساز نظر آرہے ہیں۔ میری دانست میں مسلسل سنگین ہوتا قضیہ ان کے مابین اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے شروع ہوا ہے۔’’تحریری آئین‘‘ اس قضیے کے تدارک میں ناکام رہا ہے۔ اسی باعث مجھے ’’آئینی بندوبست‘‘ کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔منطق کا استعمال کرتے ہوئے اگرچہ مجھے اتنا فکر مند نہیں ہونا چاہیے جو آئینی بندوبست 1973ء میں طے ہواتھا اسے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے کئی برسوں تک معطل رکھا۔ معطلی کے دنوں میں ’’افغان سیزن‘ بھی لگے تھے اور بازار پررونق نظر آتے تھے۔ ایک اور ممکنہ ’’معطلی‘‘ سے لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔یہ سوچنا اگرچہ ضروری ہے کہ اب کی بار کون سا ’’سیزن‘‘ لگ سکتا ہے۔
’’آئینی بندوبست‘‘ کی فکر
Feb 24, 2023