تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی لاہور میں حکومت کی جانب سے مختلف مقامات پر دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، گزشتہ برس میانوالی کے 8 اکتوبر 2022ءکو ہونے والے جلسہ میں سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور اور جھوٹے مقدمات بنانے پر جیل بھرو تحریک کی دھمکی کے 133 دنوں بعد 17 فروری کو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ۔سوال یہ اٹھتاہے کہ گرفتاری کے لیے کسی جرم کا ارتکاب یا قانون توڑنا ضروری ہے۔ بغیر کسی جرم کے کیسے گرفتاری لی جاسکتی ہے؟۔ جب ریاست کو جلسے جلوسوں اور مظاہروں سے اپنی حکومت کے جانے کا ڈر ہوتاہے تو عام طور پر امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے جس کے تحت چار سے زائد افراد کے ایک مقام پر جمع ہونے پر پابندی لگ جاتی ہے وفاقی حکومت کے موجودہ طرز عمل سے اگر حکومت اس دفعہ کا نفاذ کرے اور پی ٹی آئی کے رہنما جمع ہوں تو ان کی گرفتاری ممکن ہے۔حکومت کی یہ کوشش ہوگی کہ احتجاجاً گرفتاری دینے والے رہنما¶ں اور کارکنوں کو اس عمل سے پہلے ہی ان کے ٹھکانوں یا کسی دوسری جگہ سے گرفتار کرلیا جائے تاکہ وہ خود گرفتاری نہ دینے پہنچ سکیں، زوالفقار علی بھٹو دور میں سیاسی کارکنوں نے گرفتاریاں دی تھیں تو اس وقت یہ گرفتاریاں اس دفعہ کی خلاف ورزی کرنے پر ہوئی تھیں،مسلم لیگ ن کے وزیر داخلہ سمیت دیگر رہنما پی ٹی آئی کے لیے گرفتاری کے بعد سخت پیغام دے رہے ہیں انہیں ڈرا دھمکا رہے ہیں،وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ عمران خان جیل بھروتحریک شروع کرے، ایسا جواب دیں گے جو ان کے ذہن وگمان میں نہیں ہوگا۔لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کے رہنماﺅں اور کارکنوں کا عزم دیکھنے کے قابل ہے ،مخدوم شاہ محمود قریشی ۔اسد عمر ،ولید اقبال سمیت دیگر اہم رہنما اور کارکنوں نے اس تحریک کا آغاز لاہور سے کردیاہے،بائیس فروری سے یکم مارچ تک روزانہ 200 کارکنان گرفتاریاں دیں گے، پشاور سے کارکن 23 فروری جمعرات کو گرفتاریاں دیں گے۔تحریک انصاف کے شیڈول کے مطابق جمعہ 24 فروری کو راولپنڈی، ہفتہ 25 فروری ملتان، اتوار 26 فروری کو گوجرانوالہ اور پیر کو سرگودھا سے گرفتاریاں دی جائیں گی۔ یہ تمام گرفتار یاں دینے والے لوگ موجودہ جان لیوا مہنگائی ،اقتصادی و معیشت کی بگڑی صورتحال اور حالیہ دہشت گردی سے اس قوم کو نجات دلانے کا عزم لیکر جیلیں بھرنے کاارادہ رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں تاریخ میں پہلی بار تین بڑے کرائسس نے ایک ساتھ جنم لیا ہے جس میں دہشت گردی، سیاسی بحران ،اوراقتصادی بحران ماضی میں کبھی ان تینوں صورتحال کو کسی نے ایک ساتھ بگڑتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ میکسیکو میں ایک رکن پارلیمنٹ نے پارلیمانی اجلاس میں بحث کے دوران عوام کی نمائندگی کچھ اس طرح کی کہ تاریخ رقم ہوگئی اس رکن پارلیمنٹ نے اجلاس کی کارروائی کے دوران اپنے تمام کپڑے اتار کر کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو مجھے برہنہ دیکھ کر شرم آرہی ہوگئی لیکن آپ کو اپنے ملک کے لوگوں کو ننگا، بچوں کو ننگے پاوں، عوام کو مایوس، بے روزگار اور بھوکا دیکھ کر شرم نہیں آتی ؟ آپ کو تب بھی شرم نہیں آتی جب آپ ملک کی ساری دولت لوٹ کر عام آدمی کو غلام بنا دیتے ہیں۔ یقینی طور پرپاکستان میں شاید اس سے بھی بدتر صورتحال چل رہی ہے ۔ آج جس اندازمیں عمران خان کی کال پر جیل بھروتحریک چل رہی ہے ماضی میں ایسا ہوتاہے رہاہے ناصرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ایسی سیاسی حکمت عملی سے حکومتوں کو عوام دوست منصوبوں پر کام کرنے کے لیے دباﺅ میں لایا جاتاہے ۔2011 میں انا ہزارے نے اس وقت کی بھارتی حکومت کو جیل بھرو تحریک کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کردیا تھا،جیل بھرو تحریک کا آغاز کانگریس نے کیا تھا جب وہ انگریزوں سے کہتے تھے کہ ہندوستان سے چلے جا¶جبکہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم موجودہ مظالم کے خلاف جیل بھرو تحریک کا آغاز کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مخالفین ہمیں جیل سے ڈراتے ہیں۔ ان کے پاس جیل میں جگہ ہی نہیں ہو گی۔ ہم جیلیں بھر دیں گے۔ اس عمل سے عمران خان سمجھتے ہیں کہ جیل بھرو تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت پر دبا¶ بڑھائیں گے اور انتخابات کا مطالبہ تسلیم کروا لیں گے۔ماضی میں پاکستان میں بھی جیلیں بھرنے کا فارمولہ اپنایا گیاپاکستان میںضیا الحق کے خلاف بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی تحریک بحالی جمہوریت نے شروع کی تھی۔ایم آر ڈی کی اس سیاسی حکمت عملی کے تحت تقریباً روازنہ کی بنیاد پر گرفتاریاں ایک معمول بنی تھی۔لیکن اس بار عوام کا زور شور کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتاہے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جیل بھرو تحریک میں 18 ہزار افراد نے رجسٹریشن کی ہے اور مزید رجسٹریشن بھی ہو رہی ہے اس پر پاکستان مسلم لیگ ق نے پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے سابق 10 ارکان پنجاب اسمبلی سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیںجو تحریک انصاف کی سیاسی قوت میں مزید اضافے کا باعث بنتاہے۔جہاں عوام کو اس تحریک سے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں سے بچاناہے وہاں عمران خان کا ایک اور مقصد اپنے لوگوں کو متحرک رکھنا ہے تاکہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوں اس کا ورکر ان کے لیے تیار ہو ۔ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظراب پاکستان کے باشعور نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مٹھی بھر مافیاز کی بالادستی میں رہنا چاہتے ہیں یا پھر تحریکِ انصاف کے ساتھ جو اس وقت حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ بات ملک کی باقی اتحادی تیرہ جماعتوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ عمران خان کو نظر انداز کرنا یا ان کی سیاسی قوت کو کچلنا آسان نہیں ہوگا اور یہ بھی بات زہن نشین کرلینے والی ہے کہ عمران خان پر پابندیاں لگانے کا سےا سی فائدہ بھی تحریک انصاف کی مقبولیت کو ہی پہنچ رہاہے ،لیکن شاید اقتدار اور طاقت کے نشے میں اندھے حکمران اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھنا چاہتے ۔ ایسے نظام پر پھر یہ کہا جاسکتاہے ۔
لہو پر قرض ہوتی جارہی ہے۔
بغاوت فرض ہوتی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے موجودہ نظام کی بنیاد ہی ظلم، ناانصافی اور کرپشن پر قائم ہے اور جس نظام میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہ ہو جہاں حکمران غریب عوام کو جانور اور اشرافیہ کو سر کا تاج سمجھا جاتاہو،اس قوم کے نوجوانوں پر پھر لازم ہے کہ وہ ناکام اور فرسودہ نظام کے خاتمے کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ جب کرن امید کی مٹ جائے ۔ تو جیل چلو زندان بھرو۔