”پاکستان ہے‘ پاکستان رہے گا“


یہ 2014 ءکی بات ہے جب یورپی یونین کی عالمی سطح پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جعلی و پروپیگنڈہ پر مبنی خبریں پھیلانے والوں کی چھان بین کیلئے کام کرنے والی این جی او ”ڈس انفولیب“ کی طرف سے طویل تحقیقات کے بعد سامنے لائے گئے حقائق نے خبروں کی دنیا میں اس انکشاف کے ساتھ تہلکہ مچا دیا کہ بھارت 2005 ءسے پاکستان کے خلاف جھوٹ اور من گھڑت خبروں کا ایک ایسا مربوط و منظم نیٹ ورک چلا رہا ہے جس کی شاخیں 85 سے زیادہ ممالک میں قائم کیے گئے 265 میڈیا گروپ کے ذریعے اس انداز سے پھیلائی جارہی ہیںکہ یورپی یونین کے ممبران پارلیمنٹ ہوں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بڑے انسانی حقوق ہو یا امریکی اراکین کانگریس ،یہ سب گزشتہ 15 برسوں کے دوران کسی نہ کسی موقع پر پاکستان کے خلاف پھیلائے گئے پروپیگنڈے کے زیر اثر یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوئے کہ بھارت جنوبی ایشیاءکا ایک ایسا مظلوم ملک ہے جو برسوں سے پاکستانی جارحیت کی زد میں ہے۔ بھارتی پروپیگنڈے کے مطابق یہ جارحیت دہشت گردی کی شکل میں تھی جسے پاکستان میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مدد حمایت اور سرپرستی حاصل رہی۔ پاکستان کیخلاف شائع ہونے والی جعلی خبروں پر دنیا کے مختلف ممالک میں دفاعی تجزیہ کار مضامین لکھتے ،ان تحریروں کے ذریعے ثابت کیا جاتا کہ پاکستان دہشت گردی کو اپنے ہمسایہ ملکوں بھارت اور افغانستان میں خارجہ حکمت عملی کے طور پر استعمال کررہا ہے، یہ پاکستان ہی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ان تبصروں پر امریکہ و برطانیہ کے تھنک ٹینک الگ سے تجزیہ کرتے اور ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے کہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی ناکامیوں کا سبب پاکستان کی طرف سے افغانستان میں افغان مزاحمت کاروں کو ملنے والی مدد ہے ۔یاد رہے اس دور میں افغان مزاحمت کاروں (طالبان) کو اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا تھا۔ 
حیران کن طور پر پاکستان خود دہشت گردی کا شکار تھا۔ لیکن اظہار ہمدردی کی بجائے بھارت کی پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کی وجہ سے پاکستان میں تسلسل سے ہونے والی دہشت گردی کو بھی پاک فوج اور آئی ایس آئی کے اپنے ہی تیار کردہ دہشت گردوں سے اختلافات کی بڑی وجہ قرار دے کر الٹا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔
بھارتی جھوٹی خبروں کا دوسرا ہدف بلوچستان تھا جہاں پاک فوج کو ناجائز قابض قرار دے کر بلوچ عوام پر پاک فوج کے مظالم کی ایسی کہانیاں تراشی جاتیں جس سے بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو مزید تقویت ملتی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارت کے یوم آزادی پر پاکستان توڑنے اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دیتا، گلگت بلتسان اور آزاد کشمیر پر بھارتی ملکیت کے دعوے کرتارہا۔ ان حالات میں مجال ہے کہ پاکستان کے اندر سے پاکستان کے درجنوں نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر روزانہ شام کو رات گئے تک جاری رہنے والے ٹاک شوز میں میزبان اینکر یا مہمان تبصرہ نگاروں میں سے کسی نے بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ اور تو اور بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا بھارت کا سرکاری دہشت گرد نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو آج بھی پاکستان کی قید میں ہے۔جس کا یہاں کوئی نام لینا گوارہ نہیں کرتا۔ اس کے برعکس بھارت میں 200سے زیادہ سرکاری و نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر ان کے ہر ٹاک شو میں سوائے پاکستان کو برابھلا کہنے کے دوسرا کوئی موضوع ہی نہیں ہوتا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ بھارت کے مبصرین دن رات بھارتی ٹی وی چینلوں پر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دلائل دینے میں مصروف ہیں۔پاکستان میں کوئی ٹی وی چینل یہ خبر دینے کو تیار نہیں کہ وہاں اقلیتوں پر کس طرح کے انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی ریاست جھاڑ کنڈ میں 3چرچ جلادیے گئے ۔ اتر پردیش میں نوجوان اچھوت لڑکی کو دریا میں نہانے کے جرم میں عریاں حالت میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ مظلوم لڑکی کے تمام لواحقین اور دیگر اچھوت مرد اپنی بے گناہ لڑکی پر تشدد کو خاموش کھڑے دیکھتے رہے کہ اگرا نہوں نے تشدد کرنے والے ہندوﺅں کو روکا تو وہاں موجود سارے اجھوت ماردیے جائیں گے اور کوئی قاتلوں کو پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ 
اپنے ملک کی بات کریں تو اس وقت سوشل میڈیا پر زور شور سے پروپیگنڈہ جاری ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کو ہے یا ہوچکا ہے جب کہ دیوالیہ پن کے ان الزامات کے ساتھ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مخالفین کو رگیدنے میں مصروف ہے اور عوام پریشان ہیں کہ کس پر اعتبار کریں۔ اس کی بنیادی وجہ بطور قوم جھوٹ اور افواہوں پر یقین کرنے کا ہمارا مزاج ہے۔ ملک کی ناکامی کو زیربحث لانے والوں میں سے کوئی خود سے سوال کرنے کو تیار نہیں کہ کیا پاکستان کے کھیت کھلیانوں نے سونا اگلنا بند کردیا ہے؟ لوگ خریدار ی کیلئے بازاروں میں نہیں جارہے ؟کاروبار زندگی بند، تعمیرات ختم ، چھوٹے بڑے ہوٹلوں کو تالے اور پیٹرول پمپ بند ہوچکے ہیں؟ اگر ملک میں زندگی رواں دواں ہے تو پھر مان لیجے کہ یہ ہماری سیاسی اشرافیہ کا دوسروں کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ اوربدعنوانیوں اور بد انتظامیوں کا نتیجہ ہے جس نے پورے ملک کو بے یقینی سے دوچار کر رکھا ہے ۔ پاکستانی عوام کی اسی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کیلئے اپنے دیرینہ ایجنڈے کو مزید وسعت دینے میں مصروف ہے۔ وہ کھلا دشمن ہے جو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ڈالروں کے بدلے امریکہ یا عالمی قوتوں کے حوالے کرنے جیسی افواہیں پھیلا کر پاکستان کے عوام کو ریاست سے بدگمان کرنے کی کوششوں میں ہے۔ پاکستان کے وجود سے اس سے بڑھ کر مذاق اور کیا ہوگا کہ پاکستان دشمن بھارتی مبصرین کے پاکستان کے حصے بخروں کو لے کربھارتی چینلوں پر جاری بحث کہ ”امریکہ نے سندھ اور گلگت بلتستان پر بھارت کے حق تو تسلیم کرلیا ہے، گوادر اور معدنیات کی وجہ سے بظاہر آزاد قرار دے کر بلوچستان کو امریکہ اپنے کنٹرول میں رکھے گااور خیبر پختونخواہ افغانستان کے حوالے کردیا جائے گا۔“دکھ اور شرم کا مقام یہ ے کہ بھارتی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کو ملک میں جاری سیاسی انتشار کے تناظر میں ہمارے اپنے پاکستانی بھائی بند اس طرح کی لغو یات پر بحث مباحثہ کے علاوہ اسے سوشل میڈیا پرپھیلانے میں مصروف ہیںعلاوہ ازیں ہماری بڑی سیاسی جماعتوںکا رویہ بھی حیران کن ہے جو اس طرح کے پروپیگنڈے کو سختی سے مسترد کر نے کی بجائے باہمی سیاسی کشیدگی کو اس سطح پر لے آئے ہیں جس میں ماں جیسی ریاست کو مذاق بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ورنہ انہیں بیانگ دہل یک زبان ہوکر کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے باہمی اختلافات اپنی جگہ مادر وطن پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور تاقیامت قائم رہے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن