وفاقی حکومت کا کفایت شعاری کا جذبہ قابل قدر مگرمزید اقدامات کا متقاضی ہے


وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کفایت شعاری سے متعلق اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام وفاقی وزرائ‘ مشیر ‘ وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طورپر تنخواہیں اور مراعات لینے اور گیس‘ بجلی سمیت دیگر بلز اپنی جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی کابینہ میں کفایت شعاری سے متعلق بتایا کہ کابینہ کا سائز مختصر کیا جائے گا۔ کابینہ اراکین کے زیراستعمال تمام لگژری گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا۔ جہاں ضرورت ہوگی‘ وہاں وزراءکو سکیورٹی کیلئے صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔ وزراءاندرون و بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ معاون عملے کو بیرون ملک دوروں پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ دوروں کے دوران کابینہ ارکان پانچ ستارہ ہوٹل میں قیام نہیں کریں گے۔ تمام وزارتوں‘ ماتحت دفاتر‘ ڈویژن‘ متعلقہ محکموں کے جاری اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ جون 2024ءتک تمام لگژری اشیاءکی خریداری اور ہر طرح کی نئی گاڑیوںکی خریداری پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ آئندہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ‘ ڈویژن‘ ضلع‘ سب ڈویژن‘ یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ بجلی اور گیس کی بچت کیلئے گرمیوں میں دفاتر کھولنے کا وقت صبح سات بجے رکھنے کی تجویز منظور کی گئی ہے۔ سرکاری افسر یا حکومتی عہدیدارکو ایک سے زائد سرکاری پلاٹ نہیں دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر سرکاری افسران سے وہ سرکاری گھر خالی کرائے جائیں گے جو انگریز کے زمانے کے بنے بڑے اور عالیشان گھروں میں مقیم ہیں۔ اس سلسلے میںوزیرقانون کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو کابینہ کو مکمل پلان دے گی جس میں ان افسران کیلئے ٹاﺅن ہاﺅسز تعمیر کئے جائیں گے اور تمام سہولیات کے ساتھ اچھے گھر دیئے جائیں گے جبکہ موجودہ گھروں کی زمینوں کو بیچ کر وسائل جمع کئے جائیںگے۔
اگرچہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے پا جائیں گے اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی‘ تاہم انہوں نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کسی اقدام یا کابینہ کے کسی فیصلے کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان‘ چاروں صوبو ں کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ بھی اپنے اداروں اور حکومت میں اسی نوعیت کے فیصلوں کو بروئے کار لائیں۔ وزیراعظم کے مطابق ان فیصلوں پر عملدرآمد کے نتیجے میں 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
 بیشک وفاقی کابینہ کے مذکورہ فیصلے ملک کی بدحال معیشت کو سہارا دینے کی غرض سے ہی کئے گئے ہیں تاکہ کفایت شعاری کے ذریعے ملکی خزانے پر بوجھ میں کمی کی جا سکے ۔انہیں وقت کی عین ضرورت قراردیاجاسکتا ہے ۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر کفایت شعاری کا یہ عمل ان رہنما اصولوں کی روشنی میں ہر دور ِ حکومت میں جاری رہتا جنہیں بانی ¿پاکستان حضرت قائداعظم نے قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد حکومت کے ہرشعبہ میں لاگو کردیا تھا ‘ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ جو بھی حکومت آئی اس نے سرکاری خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ اپنی عیاشیوں کے لیے قومی وسائل کم پڑ گئے تو قرضوں کے حصول کا راستہ اپنا لیا۔ جس قدر قرضے پاکستان کی حکومتوں نے اب تک حاصل کئے ہیں‘ ان کا عشر عشیر بھی پاکستان کے عوام اور اس ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے خرچ نہیں کیا گیا اور آج اس کا منطقی نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ ملک جو ابتدائی سالوں میں بہترین شرح نمو کے ساتھ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جاتا تھا‘ جو زرعی پیداوار میں خودکفایت کی منزل عبور کرکے اجناس کی برآمدات کی صورت میں زرمبادلہ حاصل کرتا تھا اور جس کی روزافزوں ترقی نے ایشیا ¿کے ممالک میں ایک مثال کا درجہ حاصل کر لیا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ قرضوں کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔ دولت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے معاشرے میں بدترین طبقاتی تفاوت کا جنم دیا۔ ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جاتی رہیں کہ جن سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ آج ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس حقیقت کا ادراک رکھنے کے باوجود اس سمت میں کوئی قدم اٹھانے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
 وزیراعظم اور ان کی 83 رکنی تاریخ کی بھاری ترین کابینہ کا کفایت شعاری کے حوالے سے یہ جذبہ بے شک قابل قدر ہے‘ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ملک کی دیوالیہ ہوتی معیشت ابھی مزید اقدامات کی متقاضی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی معیشت کو قرضوں کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے پاو¿ں پر کھڑا نہیں کیاجاسکتا ۔اس کے لیے ہمیں خود ہی کوششیں کرنا ہوں گی ۔ٹیکس نیٹ کا دائرہ مزید بڑھانا ہوگا ، جو بااثر طبقات ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں اس میں لانا ہوگا۔ محکمانہ اصلاحات کرنا ہوں گی ۔غیر پیداواری اخراجات کو کم سے کم کرنا ہوگا۔ سینٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان کی تقریر کوعوامی سطح پر وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے جس میں انہوں نے ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ‘ بااثر اور باوسائل شخصیات سے اپیل کی کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے 50 فیصد اثاثے قومی خزانے میں جمع کروائیں۔ بہت سے سرکاری محکمے اور کارپوریشنیں سفید ہاتھی بن چکے ہیںاور خسارے پر چل رہے ہیں ان میں سدھار لانا ہوگا۔اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر اور سینئر بیورو کریٹ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی ہے اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ 
اگرچہ حکومت نے کفایت شعاری کے حوالے سے مذکورہ فیصلے ایسے وقت میں کیے ہیں جب عوام الناس کے وسیع حلقوں کی طرف سے ان کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا۔ اصولی طور پر یہ فیصلے گزشتہ سال قومی بجٹ پیش کرتے وقت کیے جاتے تو اس کے زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوتے کیوںکہ اس وقت حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ان تمام فیصلوں پر پوری طرح عمل ہوسکے ۔ لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی طرف سے کئے گئے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق بلاتاخیر عملدرآمد کا آغاز کر دیا جائے اور دوسرے محکمے اور ادارے بھی ویسے ہی اقدامات اٹھائیں تاکہ ملکی خزانے پر بوجھ میں خاطرخواہ کمی آسکے اور حکومت کیلئے عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے مواقع میسر آ سکیں۔

ای پیپر دی نیشن