ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم
پاکستان اپنے تمام تر جواہر و جولانیوں کے ساتھ معرضِ وجود میں آیا تھا اس میں قومی زبان اُردو بھی ایک اہم عنصر ہے جس کے بغیر نہ تعلیم ممکن ہے اور نہ صحیح معنوں میں علم و آگہی ہو سکتی ہے۔ اُردو کو اپنا صحیح مقام ملے تو لوگ اپنا مدعا، مافی الضمیر، احساسات، مشاہدات و تجربات کو بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔ قومی زبان اُردو ہی سے ہماری قوم و ملک کا تہذیبی مستقبل وابستہ ہے۔ قومی زبان ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے ہمارا ذوق، طرزِ فکر، اخلاق اور فہم و فراست کی پروان ہو گی۔ وسیلہ اور سیکھنے کا عمل صرف اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مادری زبان یا پھر قومی زبان کی مدد لی جائے۔ گزشتہ تین چار سو سالوں میں اخلاقی، تہذیبی، علمی اور فکری تصنیفات کا زیادہ حصّہ عربی اور فارسی زبان سے براہِ راست اُردو میں منتقل ہوا ہے۔ یونانی افکار کو سب سے پہلے مسلم فلسفیوں نے عربی میں ترجمہ کیا اور پھر عربی سے انگریزی میں تراجم کئے گئے جس وجہ سے فلسفۂ جدید نے جنم لیا اور بعد از جدید فلسفہ کا دور آگے بڑھ رہا ہے۔ جب عربی اور فارسی سے براہ راست اُردو میں علم و ادب اور مختلف افکار کا ترجمہ ہوا تو یہ خلا پورا ہو گیا کہ دیگر زبانوں کا سہارا نہ لیا جائے۔
سورۃ ابراہیم میں ارشادِ خداوندی ہے : ترجمہ : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کر دے۔‘‘
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’ہم نے قرآن عربی میں اُتارا تاکہ لوگ سمجھ سکیں۔‘‘
ان آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زبان میں سیکھنا اور سکھانا ممکن ہو سکتا ہے جو ان کی اپنی ہو۔ مادری زبان ہو یا قومی زبان ہو۔ ہماری پاکستانی قومی زبان اُردو ہے اس لئے اُردو میں ہی تعلیم و تربیت دی جانی ضروری ہے۔ اگر علم و ادب اور فکر و فلسفہ ملے تو بدیسی زبان بھی سیکھنی چاہیے۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ زبان آتی نہ ہو اور مفہوم کا پتہ نہ چلے پھر آگہی اور تعلیم و تربیت ممکن نہیں ہو سکتی بلکہ صورتِ حال یہ ہو جاتی ہے کہ : ’’زبانِ یار من ترکی و ترکی نمی دانم۔‘‘
قومی زبان کو سمجھنا بے حد آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ ہماری رگ و پے میں روح کی طرح سرایت کر چکی ہوتی ہے اور خون کی طرح دوڑتی ہوئی قوتِ گویائی و فہم و فراست مہیا کرتی ہے۔ قومی زبان ہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمیں ماضی، حال اور مستقبل کی شان و شوکت کی سنہری جھلک دکھائی دیتی ہے۔ تعلیم و تدریس، علمی، ثقافتی، فکری اور سائنسی ترقی صرف قومی زبان ہی سے ممکن ہے۔ قومی زبان کے فیوض و برکات سے ہی نوجوانانِ ملت کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
یہی چرا غ جلیں گے تو روشنی ہو گی
ذخیرئہ الفاظ جتنا زیادہ ہوگا فقرات بنانے میں آسانی ہو گی۔ فقرات سے پیراگراف اور پھر مضمون یا کہانی لکھی جاتی ہے۔ قومی زبان کا ذخیرہ الفاظ اور دیگر اعمال آسانی سے ممکن ہو سکتے ہیں کیونکہ مادری زبان بھی قومی زبان ہو سکتی ہے یا پھر علاقائی زبان قومی زبان میں ترقی کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے جیسے کہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی ،پشتو، پوٹھوہاری یا اور کوئی علاقائی زبان۔
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
ڈاکٹر اشیتاق حسین قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کراچی نے سب سے پہلے یونیورسٹی میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم قرار دلوانے میں پہل کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا ’’میری پہلی گزارش یہ ہے کہ طبعی علوم کے ماہرین اگر اس قوم میں ان علوم کا صحیح ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی زبان میں منتقل کریں۔ اپنی زبان میں سوچیں اور اپنی زبان میں لکھیں، اپنی زبان میں سمجھیں اور اپنی زبان میں سمجھائیں تاکہ یہ علوم پھیلیں اور عوام تک پہنچیں۔ تاریخ کا کون سا طالب علم ایسا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ جب تک یورپ میں علوم لاطینی اور یونانی زبانوں کے جکڑ بند میں رہے۔ وہاں کا دور تاریکی ختم نہ ہوا۔ حالانکہ یورپی زبانیں لاطینی سے وہ بُعد نہیں رکھتیں جو انگریزی کو اُردو سے ہے۔ خود انگلستان میں ترقی کی ابتدا اس دن سے ہوئی جس دن سے انجیل کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ اس ایک چھوٹی سی کتاب کے ترجمہ سے اتنی روشنی پھیل گئی تو اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے سے یقینا بہت مفید نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
’’تحریکِ نفاذِ اُردو ‘‘ کے منتظمین نے 25 فروری 2023ء بروز ہفتہ ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں یومِ قومی زبان منانے کے لئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام 2:30 بجے کیا ہے۔ تحریکِ نفاذِ اُردو عرصہ دراز سے قومی زبان اُردو کی ترقی اور نفاذ کے لئے شب و روز کوشاں ہے اس سے قبل ای لائبریری قذافی سٹیڈیم اوردیگر مقامات پر تقاریب منعقد کی ہیں۔ کبھی شام کبھی دوپہر اور کبھی صبح ناشتہ کے بہانا کوئی نہ کوئی محفل جما لیتے ہیں تاکہ قومی زبان اُردو کی ترویج و ترقی میں حصہ ڈالا جا سکے۔ اسلام آباد میں مقیم عطا محمد چوہان مرکزی صدر کی سرپرستی میں لاہور میں موجود محترمہ افشیں شہریار سینئر نائب صدر پنجاب بے حد فعال ہیں۔ لاہور میں تقریب منعقد کرنے کے لئے عمران یوسف صدر لاہور ڈویژن نے مشاورت کے لئے زوم میٹنگ کر کے مشورے حاصل کئے اور یہ طے پایا کہ لاہور میں معروف تعلیمی ادارہ فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی لاہور میں ایک بہترین فکری نشست منعقد کی جائے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول نائب صدر لاہور چونکہ پروفیسر اُردو اسی ادارہ میں ہیں اس لیے انہوں نے مناسب اور کامیاب پروگرام منعقد کرنے کے لئے، شعبۂ اُردو ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں اہتمام کیا ہے۔ رفیق بھٹی محسنی کنوئینر پنجاب ہمہ وقت اس سلسلہ میں تیار رہتے ہیں۔ عابد نصیر سینئر نائب صدر لاہور ڈویژن اپنے مخصوص لب و لہجہ میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہیں جہاں ضرورت ہو اشعار اور معروف محاوروں کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اظہر صدیق ناظم واہگہ ٹائون ہیں وہ بھی سرحد پار کی زبان کا ملاپ کریں گے۔ منشا یار ناظم اعلیٰ قصور زبان یار من ترکی سے آگے کی بات کرتے ہیں۔ کاشف مغل ناظم اعلیٰ ننکانہ صاحب بھی اپنے اندازسے شامل ہوں گے۔ عابد وسیم ناظم گلبرگ ٹائون لاہور یقینا اشرافیہ کو قومی زبان سکھاتے ہوں گے۔۔ روزینہ نازش بٹ بحیثیت سیکرٹری جنرل تقریب کی منتظم اور روح رواں ہوتی ہیں عقیلہ بٹ جوائنٹ سیکرٹری بھی ان کے ہمراہ رونق افروز ہوں گی۔ افشاں کیانی چونکہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ہیں اس لئے وہ بروقت اطلاعات باہم پہنچاتی ہیں۔ ضیغم عباس گوندل ممبر مرکزی کمیٹی اپنے اشعار سے محفل کو جوان رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ایسے پیغامات دیتے ہیں کہ بہتر مشاورت ہوتی ہے۔ مریم راشد بھی ہر محفل میں موجود ہوتی ہیں۔ اپنی باتوں اور شاعری سے محفل میں رونق کا باعث بنتی ہیں ۔ طاہرہ بانو اور امِ ہانی بھی عرصہ دراز سے مصروف ِعمل ہیں۔ معروف شاعر اعتبار ساجد بھی مسکراہٹ سے اپنے پختہ اشعار سناتے ہیں۔ معروف مذہبی مفکر ڈاکٹر طارق شریف زادہ بحیثیت سرپرست اپنی قیمتی گفتگو سے محظوظ کرتے ہیں۔ راقم ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم کو بھی انہوں نے ہربار بحیثیت سرپرست مدعو کیا ہے۔ میں بھی اپنی علمی و فکری بساط کے مطابق کوشش کرتا ہوں کہ نفاذِ اُردو کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالوں۔ عمران یوسف ’’تھینٹ ہال‘‘ تعلیمی ادارہ کے سربراہ ہیں وہاں بھی نفاذِ اُردو کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ 25 فروری کی تقریب منعقد کرنے کے لئے انہوں نے کئی دن محنت کی ہے جس کے لئے محترمہ افشیں شہریار کی صدارتی سرپرستی کی ہمیشہ ضرورت رہی ۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
نفاذِ اُردو سے علم وفکر سے محبت عیاں ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ایک کو اور خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اس قومی کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تاکہ نفاذِ اُردو میں آسانی پیدا ہو۔ آئین بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ اور عالیہ بھی اپنے فیصلوں میں نفاذِاُردو کی تلقین کر چکی ہیں۔
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
اُخوت کا بیاں، محبت کی زبان، خودی میں ڈوبنے، شبستانِ محبت میں حریرو پرنیاں، جوئے نغمہ خواں، راز کن فکاں اپنی آنکھوں پر عیاں کرنے کے لئے، گلستانِ زندگی میں باد بہاری سے استفادہ صرف اور صرف نفاذِ اُردو سے ممکن ہے کیونکہ اُردو پاکستانی قومی زبان ہے اس کی ترویج و ترقی کرنا یقینا کارِ ثواب اور نیکی ہے۔ مختلف تنظیمیں اس سلسلہ میں کام کر رہی ہیں۔ میں نے پہلے بھی مشورہ دیا تھا کہ جس زبان میں بھی علم و فکر کی مدد درکار ہو ماہرین اسے اُردو میں ترجمہ کریں تاکہ سب لوگ استفادہ کر سکیں۔ دیگر کسی زبان سے لاتعلقی نہ کی جائے۔ نفرت کے بجائے محبت اور لگائو سے کام لیا جائے کیونکہ زبان تو وسیلہ ہے علم و فکر، مدعا، احکامات اور ہدایات کا۔ اس لئے کسی بھی زبان سے مدد لی جائے تاکہ ہماری قومی زبان اُردو کا مقام بہتر سے بہتر ہو سکے۔
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تُو نہیں جہاں کے لیے
کوئی بھی زبان ابلاغ کے لئے ایک آلہ اور وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ الفاظ اس کی وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو فقرات بنا کر مفہوم پیدا کرتی ہیں۔ زبان ہمیں مفہوم، مقصد اور خیال سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ زبان کی اہمیت و ضرورت یہ ہے کہ مدعا بیان کرنا، تفہیم، علم کی منتقلی، تہذیب کا تحفظ، ثقافت کا جاننا، غبار نکالنا، اطلاعات پہنچانا، معاشی اقتصادی ترقی، معاشرتی تبدیلی، تعلیم و تربیت اور جدید علوم سیکھنا اور اجتماعی و انفرادی ترقی۔ اس لئے بے حد ضروری ہے کہ پاکستانی قومی زبان اُردو کی ترویج و ترقی کے لئے حکومتی سطح پر کوشش کی جائے کیونکہ جس کے پاس طاقت اور کنٹرول ہو وہی نفاذِ اُردو میں کامیابی سے عمل کر سکتا ہے۔ زبان ہی کے استعمال میں اطلاعاتی، اظہاراتی اور ہدایاتی یا احکاماتی نہایت اہم ہیں۔ ان تینوں استعمال کے لئے اُردو زبان نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئے اُمید کی جاتی ہے کہ ’’تحریک نفاذِ اُردو کی کاوشیں جلد رنگ لائیں گیں۔ جب زبان اپنی ہو گی، عام فہم ہو گی تو ہم زندگی کے تمام شعبہ جات میں ترقی کی منازل عبور کریں گے۔ لوگ اپنی صلاحیتوں، خوبیوں اورہُنر کو بھرپور انداز سے استعمال کریں گے۔ یقین پختہ ہو گا اور مستقبل یقینا روشن ہو گا۔
جب اس انگارئہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر رُوح الامین پیدا
uuu