کالا ہے سب کالا ہے 


سعدیہ بشیر
خرابی کالے رنگ میں نہ تھی .کالے دلدار کے لیے تو  شاعر نے گوروں کو ہری جھنڈی کروا رکھی تھی .شاعر کے دماغ پر سیاہ فام محبوب قابض تھا اور مجنوں کے لیے لیلی کا حسن دائمی مقناطیس تھا .دن اگر چمکدار ہے تو خواب دیکھنے کے لیے رات کالی ہی ہوتی ہے .اس لیے رنگوں کو دوش دینا معاملہ فہمی نہیں . دراصل  خرابی اور پھر بے تحاشا خرابی کا باعث کالی بھیڑیں تھیں . جن کا رنگ ہی نہیں دل بھی کالک زدہ تھا اس کالک پر ستارے ٹانگنے کے لیے کتنے ہی فالج زدہ دماغ دھڑا دھڑ سٹیکر چپکا رہے تھے جو کبھی بھی delete نہیں کیے جا سکتے تھے .کالی بھیڑوں کو پیر وقت ثابت کرنے کے لیے  فدائین ہاتھ لہرا رہے تھے اور دفاعی مورچوں سے چپکے خود کو مجاہد وقت کا درجہ دے کر ایسی اسناد ایشو کروا  چکے تھے جو معتبر تھیں اور انھیں کسی ادارے سے verification  کی قطعی ضرورت نہ تھی .خدا جانتا ہے کہ یہ جہاد کی کون سی قسم تھی جو جھوٹی قسمیں کھا کر بھی ہر طرف پھلتی پھیلتی جا رہی تھی اور  یہ عشق کا کون سا درجہ تھا جس میں آنکھ اندھی عقیدت کے تحت کبھی کھلنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور امید عزت نفس کو تیاگ کر دامن پھیلائے خاک نشیں رہتی تھی۔
دراصل کالی بھیڑوں نے آپس میں ایکا کر لیا تھا کہ کالے کو سفید کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔اہمیت اس بات کی ہے کہ فی زمانہ کتنے لوگ سیاہ دل کے ہاتھ میں سفید تسبیح کے مطیع و پیروکار ہیں۔ سو اب  سفید کہنا اور سمجھنا تقاضائے وقت بلکہ وقت کی اہم ترین انڈسٹری بن چکی تھی .
اس پر عدالت وقت کی مہر ہر کالی بھیڑ کے پاس موجود تھی اور کالے دھن کے ساتھ ساتھ  ہر تاریک منظر اور سیاہ کارناموں پر ثبت کی جاتی اور اس پر شک کرنے والے کی فکر اور انگلی اٹھانے والے کا ہاتھ ہی مفلوج کر دیا جاتا . تن کو سفید کرنے کے لیے جگہ جگہ سیلون موجود تھے۔ وائٹننگ  انجکشن کی تشہیر کچھ اس انداز سے کی جا رہی تھی جس سے مستقبل بعید میں سیاہ فام کا لفظ اور نسل بھی متروک ہو سکتی تھی . افریقہ سے سیاہ فاموں کا مسکن مٹ سکتا تھا اور امریکہ کی تاریخ بدل سکتی تھی .  جدید آئین میں ایسے  بے شمار امکانات روشن تھے جس سے دنیا کی آنکھیں چکا چوند رہ جاتیں .البتہ بصارت کی روشنی اور تاریکی کا اندازہ لگانے میں کالی بھیڑوں کو چنداں دلچسپی نہ تھی ، نہ ہے اور نہ ہی مستقبل بعید میں اس کا کوئی امکان و امید ممکن تھی۔ سرخ و زرد سے الجھتی نگاہ   کسی لینس سے تیز نہیں ہو سکتی تھی۔حد امکان تک الجھی نگاہ سیاہ و سفید کی تمیز میں بھی ناکام تھی۔ کالی بھیڑوں کا شجرہ نسب اسی  مچھلی سے ملتا تھا جو سارے جل کو گندا کرتی ہے . سو اب ساون کے اندھوں کو بھی کالا ہی سوجھتا تھا . کالی بھیڑوں نے کالے رنگ کی پاکیزگی کو گدلا کر دیا تھا .اور اب اس کی  مقناطیسی اور سیاہ پارس  پتھر کی ہر خصوصیت دھندلانے اور اس کو مشکوک بنانے پر تلی تھیں . ہر اجالا واضح طور پر اندھیرے سے لبالب تھا لیکن آئین میں وہ مجسم روشنی  تھا .حسن , سچائی ,نیکی اور روشنی کے جدید رنگوں  سے سجا تاریک منظر تاریخ گوئی کے صفحات میں منعکس ہو کر کالے قانون کو " نیا قانون " ثابت کر رہا تھا .. نئے پن کی تاریکی اب سپیدی تھی .کالی بھیڑیں اعتماد کی ہر حد پار کر چکی تھیں .ان کی ا?نکھوں سے نکلتے شعلوں میں صرف راکھ رہ گئی تھی جس کے جلنے بجھنے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا .یہ  یکطرفہ ٹریفک تھی جو چھوٹی سفید مچھلیوں کو روند کر تیز رفتاری سے بڑھتی چلی جاتی ہے . اس سفر میں کسی کو بھی پلٹنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کالی بھیڑوں کے لیے کالی دنیا کے قوانین مقدس تھے اور انھوں نے جب بھی منظر روشن کرنے کا اعلان کیا  زندگی کی تاریکیاں پردہ سکرین پر جگمگانے لگیں۔ اسی منظر نامے میں کالی بھیڑیں اعتماد سے ا?نکھوں میں ا?نکھیں ڈال کر  کالی روشنی کو اجالا اور  ماحول کو منور  ہونے کے پمفلٹ چھپوانے کے ٹھیکے تقسیم کرنے  لگیں یوں  کالے رنگ کو ایک نئے معنی عطا کرنے کی مہم چلنے لگی۔  جہاد کی سینکڑوں اقسام متعارف کروائی جا چکی تھیں۔ ہر تیسرا آدمی بیانیاتی مجاہد تھا اور جھوٹی قسمیں کھا کر بیانیہ کی تشہیر میں جان کی ہی نہیں اعمال کی بھی بازی لگا چکا تھا اس کے بغیر اس کے ماتھے پر ستارے نہیں ٹنگ سکتے تھے۔ رہ گیا عشق توعشق بچھو بھی تھا ، سانپ بھی ، بھیڑ بھی اور زرافہ بھی۔کالی بھیڑوں کی تو بن آئی تھی۔نہ صرف  منظر نامہ  بلکہ پس منظر اور پیش منظر میں بھی انھی کا سکہ رائج تھا۔ یہ رائج الوقت سکہ کھوٹا تھا یا کھرا  ، اس سے قطع نظر چل صرف یہ سکہ ہی رہا تھا۔ کالی بھیڑوں نے درویشی کا لبادہ اوڑھا اور 
صوفی ازم میں بھگتی راگ کے جدید سر متعارف کروائے۔ یہ سر اپنی تال میل میں ایسے اٹھے کہ ان کی گرد سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا۔ زندگی کی بھونڈی عکاسی میں لیلی نظر آتا رہا اور مجنوں نظر آتی رہی۔شنید ہے کہ کالی بھیڑوں کے ریوڑ کی نگرانی یا  انھیں گود لینے کا ذمہ دار مکار بھیڑیا ہوتا ہے۔وہ کالی بھیڑوں کو سفید لباس پہنا کر پیش کرتا ہے۔بچپن میں ہم نے مکار بھیڑیے کی ایک کہانی پڑھی تھی جس میں بھیڑیا ہر صورت ننھے بچوں کو کھانا چاہتا ہے
 اور اچھا دھاری سانپ کی طرح کبھی دادی اور کبھی گھر کے کسی اور فرد کی صورت بدل کر دھوکا دیتا ہے۔ آج کی کالی بھیڑیں جس بھیڑیا کے گلہ میں ہیں ،  وہ جدید تکنیک اور جھوٹ کے فرامین سے بخوبی واقف ہے۔ اب وہ صرف مجذوبیت کا چغہ پہن کر دھوکا دیتا ہے۔ گواہ سے منصفی تک کا تمام عمل اور رد عمل  ان کے دل کی سیاہی سے رنگا گیا ہے۔ لیکن اس کی چمک ماند نہیں پڑتی۔کالی بھیڑیں اپنے غلیظ پنجوں کو ید بیضا سے تعبیر کرتی ہیں۔ہمارے لیے توہم کے کارخانے میں جگنو بھی کالے ہیں اور خواب بھی۔  یہ سیاہی کس نے انڈیلی ہے۔خبر نہیں ۔ابتدا و انتہا سے بے خبر آئیتھے بے خبر جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن