نے کہا ہے کہ کے سی آر کو کاغذوں سے نکال کر بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے دیرینہ مسائل کا بہترین حل ہے۔ حکومت کی مہربانی سے کے سی آرآج بھی صرف کاغذوں تک محدودہے۔ 1999سے شروع ہونے والے کراچی سرکلر ریلوے کا ہر حکومت میں سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے لیکن کوئی عملی کام شروع نہیں کیا جاتا۔ سندھ حکومت اور وفاق کراچی کے اہم ترین مسئلے کے حل کے لئے سبز باغ دکھانے کا سلسلہ بند کریں۔ جس شہر میں پانچ ہزار بڑی بسیں چلانے کی ضرورت ہو وہاں صرف سو، پچاس پیپلز بس سروس چلادینا اور کے سی آر منصوبے کو مسلسل تاخیر کا شکار کرناعوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔ حکمران مخلص اور دیانتدار ہوتے تو کے سی آر کو کچھ مہینوں میں ہی دوبارہ شروع کیا جا سکتا تھا۔ سندھ حکومت ووٹ بینک بڑھانے کے لئے لیپا پوتی کے اقدامات سے باز رہے۔کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ میں پہلے ہی کئی برسوں کی تاخیر ہوچکی ہے۔کراچی سرکلر ریلوے کو ’’سیاسی اکھاڑہ‘‘ بنانے کے بجائے عوام کے ووٹوں کا احترام کیا جائے ۔وفاقی وزیر ریلوے کراچی کے معاملات میں دلچسپی لے کر کے سی آر منصوبہ کی تکمیل کے لئے اقدامات کریں ۔ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کے مسائل سے نجات دلوانے کے لئے وفاق اور صوبہ ایک پیج پر آئیں۔ کراچی کے عوام کو بسوں کے نام پر محض جھوٹے وعدوں کا جھانسہ دینا بند کیا جائے۔ حکومتی وزراء کے ان وعدوں سے عوام کی مشکلات کم نہیں ہو سکتیں۔کراچی کو چارٹرڈ سٹی کا آئینی درجہ اور بااختیار میئر دے کر تمام مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں۔وزیر اعلی سید مراد علی شاہ، بلاول ہائوس میں نوٹوں کے بریف کیس بھیجنے کے بجائے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کریں، کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے عملی کام کریں۔ کراچی کی ترقی کے لئے اب تک سات ترقیاتی منصوبے تشکیل دیئے گئے جن میں سے دو قیام پاکستان سے قبل کے ہیں جبکہ پانچ قیام پاکستان کے بعد کے جن میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاسبان پریس انفارمیشن سیل سے جاری کردہ بیان میں پی ڈی پی کراچی کے چیف آرگنائزر طارق چاندی والا نے مزید کہا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی سے ٹریفک کی صورتحال میں بہتری اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی۔ لاہور، پنڈی،ملتان اور پشاور میٹرو اپنے اپنے مقررہ وقت میں مکمل ہو گئیں لیکن کے سی آر کی بحالی میں تاخیر پیپلز پارٹی کی بدنیتی کا کھلا ثبوت ہے۔ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتیں معاشی حب کراچی کو علاقائی تجارت، صنعت اور تجارت کا گڑھ بننے ہی نہیں دینا چاہتیں۔ کراچی کو ہر طرح سے تباہ و برباد کرنے کے لئے یہاں کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی بحالی کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اسے درست کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ہزاروں بہترین بسوں کے دعوے سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں۔ چند گرین لائن بسوں ،پنک بسوں اور پیپلز بس سروس کے نام پر عوام کو جھوٹے تسلی دلاسے دیئے گئے ہیں۔ درحقیقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں کئی دہائیوں سے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، ٹرانزٹ بسوںاور نئی بسوں کا لالی پاپ دے کر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ دونوں حکومتوں کے اقدامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو تبدیل کرنے کے لئے پرعزم نہیں ہیں۔