صوبیہ خان
جب میں نے نیا نیا ایم اے کیا تو مجھے ایک کالج میں پڑھانے کا موقع ملا۔ انہی دنوں الیکشن میں میری ڈیوٹی بھی لگ گئی
گورنمٹ سکول کی ایک ٹیچر میرے ساتھ تھیں انہوں نے مجھے یہ سہولت دی کہ تم نے صرف اس پیپر پہ اپنے سائن کرنے ہیں اور مور لگانی ہے
میں سارا دن اپنے سائن کرتی رہی اور شام کو جب ڈیوٹی آف ہوئی تو اس سے پہلے میں اپنے ہی سائن کرنے بھول چکی تھی
عجیب اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمارے ساتھ کوئی پچاس سال کا ایک پولیس اہلکار بھی کھڑا جس سے میں سارا دن ڈرتی رہی حالانکہ وہ تو ہمارے احساس میں عورتوں کو آگے پیچھے کر رہا تھا ایک دو بار اس نے میری طرف دیکھ کے سمائل بھی پاس کی لیکن اس کے ہر بار دیکھنے پہ میں سہم سی جاتی تھی
دوپہر کو کھانے کے لیے بھی کہا گیا لیکن ڈر سے کھایا بھی نہیں گیا
اور تکلفا انکار کر دیا
میں اس کانام بھول چکی ہوں
لیکن اس کا انداز جو مہربانی اور ہمدردی کا تھا مجھے یاد ہے۔
میں سمجھتی ہوں یہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرتیں ہیں جو کسی بھی شخص ، محکمے یا جگہ سے وابستہ کر لی جاتی ہیں اس میں شائد ان کا کوئی زیادہ قصور نہیں ہوتا لیکن چند ایک افراد کی بددیانتی کی وجہ سے سارے کا سارا نظام اور محکمہ بدنام ہو جاتا یے۔
جیسے ساری انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ایک ہی ماں کے پیدا کیے ہوئے بچے ایک جیسے نہیں ہوتے ایک ہی معاشرے میں سب لوگ سب محکمے ایک جیسے نہیں ہوتے
اب عمر کے اس حصے میں جب کیفیات اور احساسات کو بیان کرنے کے لیے رب تعالیٰ نے وسیلے اور وسائل پیدا فرما دیئے ہیں تو میں ہمیشہ ان لوگوں کے لیے اپنے قلم کو وسیلہ اظہار بناتی ہوں جن سے میں ذاتی طور ہی متاثر ہوتی ہوں۔جو معاشرے میں روح وجاں کی طرح اہم ہوتے ہیں جن کے منفرد انمول اور یونیک کام انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں،جنہیں دیکھ کے سن کے اور جن کے انداز گفتگو سے ہر ذہین اور دل کا بندہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا
میری یہاں تمام تر تمہید کا مقصد بہت محترم جناب ڈاکٹر غلام رسول ذاہد صاحب ہیں ،
ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ پہلے پولیس آفیسر ہیں جنہوں نے قرآن کریم پہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ،قران پاک کی تفسیر پہ پی ایچ ڈی کرنا کوئی آسان کام نہیں یہ ایک سمندر کو عبور کرنے سے بھی بڑھ کے ہے
اس بڑی سعادت پہ وہ جتنا بھی ناز کریں کم ہے
میں نے ایک نجی چینل کے پروگرام حکمت قرآن میں ان کی گفتگو سنی۔
ڈاکٹر صاحب بات بات پہ جس طرح قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں وہ لاجواب عمل تھا
شائد کوئی حافظ قرآن بھی اس قدر آیات کے معانی اور مفاہیم سے آگاہ نہ ہو، اور برموقع برمحل یوں ادا نہ کر پائے۔
یہ تحفہ خداوندی ہے کہیں الہام کی کوئی کیفیت ذہین و دل پہ اثر کیے ہوئے ہے جو اس قدر روانی اور آسانی سے آیات مبارکہ ادا ہو رہی ہوتی ہیں
ڈاکٹر صاحب کا یہ عظیم اور منفرد کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
ایک نجی یونیورسٹی میں ان سے ملاقات ہوئی جس کے دوران انہوں نے بہت سے موضوعات پہ گفتگو کی اپنے محکمے کی بابت بات کرتے ہوئے کہنے لگے
ہمارے ہاں اس افسر کو قابل افسر سمجھا جاتا ہے جو دو چار بھڑکیں مارتے اور اس پہ مزید اگر ہو سکے تو ہلکی پھلکی گالی بھی نکلال دے
اس افسر کے رعب دبدے کو اس کے ماتحت قبول کریں گے
اور جو مہذب اور شائستگی سے بات کرے گا اس کی بات پہ غور ہی نہیں ہو گا
میں سمجھتی ہوں اس جیسے روئیے ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں
نرم مزاجی اور متانت سے بات کرنے والے کو اہمیت نہیں دی جاتی
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم شرافت اور آسان زبان میں بات کو سمجھ نہیں پاتے۔
ہمارے معیار زندگی بدل گئے ہیں ہم ان اقدار کے پاس دار نہیں رہے جو ہماری میراث تھیں ہم نے اپنی بنیادی تعلیمات ہی کھو دی ہیں
عزت کے بدلے عزت پانے کا سب سے بڑا قائدہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔اج ہم اس درس کو بھول بیٹھے ہیں اسی لیے پستیوں ہمارا مقدر ہیں ہم اعتبار جیسی بڑی نعمت سے محروم ہو رہے ہیں
ڈاکٹر غلام رسول ذاہد جیسے قابل ذہین ، باوقار اور عملی آدمی جو کہ نہ صرف عالم دین ہیں بلکہ ایک ایماندار آفیسر بھی ہیں ان کی خدمات پہ انہیں جتنا سراہا جائے کم ہے
ایسے لوگ آنے والی نسلوں کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں روز روشن کی طرح ان کے نام ہمیشہ یاد رہیں گے
پنجاب پولیس کے لیے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ ان کے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے جو ان کیں سب سے بڑی کتاب قرآن پاک پہ پی ایچ ڈی کرنے والا پہلا پویس آفیسر ہے
جس کے پاس دنیا بھی ہے اور آخرت کا سامان بھی موجود ہے
اور وہ ان کے مسخ شدہ چہرے پہ روشنی کا ہالا ہے جس نے ان کا معیار اور وقار بلند کیا
یقینا اور بھی بہت سے پویس کے محلے میں موجود افراد اعلی خصوصیات کے حامل ہوں گے جن کو سراہے جانے کی ضرورت یے
اور ہمیشہ خراج تحسین پیش کرنا صلاحیتوں کو نمو دینے کا باعث بنا ہے، سراہے جانے سے کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے
ڈاکٹر غلام رسول ذاہد صاحب کے ادبی کام کے حوالے سے انہیں بیشمار ایوارڈز مل چکے ہیں
آپ اولڈ راوین ہیں انگلش لٹریچر میں ماسڑ کر چکے ہیں اس کے علاؤہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی ان کے پاس ہے
پویس کے محکمے میں وہ اس وقت ایڈیشنل آئی جی
انوسٹیگیشن ہیں اور اپنے کام میں مزید ترقی کے لیے کوشاں ہیں
ان کی چند کتابوں کے نام دیکھیئے
کوسو میں ایک سال
ایک پویس آفیسر کی ڈائری
ذوقِ اضطراب
ڈاکٹر صاحب ایک ایماندار پولیس آفیسر ایک عالم دین اور ایک صاف شفاف شخصیت کے مالک انسان ہیں جو یقیناً ہم سب کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی شخصیت میں کمال کی عاجزی اور نفاست ہے
یقیناً ایسے افراد معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
آپ کی ادب سے دلچسپی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، یقیناً ایک حساس دل والا انسان ہی ادب شناس ہو سکتا ہے ،جو معاشرے کی ناانصافیوں تعصبات اور اس میں شامل بدعنوان عناصر کے لیے درد دل رکھتا ہو اور عام بندے کی آواز بن کر سامنے آئے
ڈاکٹر صاحب کے لیے بہت دعائیں اور ان کے عزم صمیم کے لیے نیک خواہشات
اپنی غزل کے چند اشعار پیش کرتی ہوں
ہر گھڑی سادگی پہ مرتی ہوں
میں تیری عاجزی پہ مرتی ہوں
تیرے قدموں میں رکھ کے دل اپنا
اپنی اس دلبری پہ مرتی ہوں
یاد آتے ہو جس گھڑی مجھ کو
میں تو اس ہر گھڑی پہ مرتی ہوں
تجھ کو کہتی ہوں زندگی اپنی
اور پھر زندگی پہ مرتی ہوں