فہمیدہ کوثر
ابھی تو فضا اور ماحول دھاندلی اور فریب کے نعروں سے گونج رہا ہے اور مضبوط حکومت کاتصور ایک خواب بن گیا ہے
بقول شاعر انشاءتواپنے یار کی یہ جوڑ توڑ دیکھ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے فی الحال تو جس کروٹ بٹھایا جارہا ہے۔ اس سے کیا مضبوط سیاسی استحکام کو فروغ مل سکتا ہے کیا ڈھیلی ڈھالی حکومت پانچ سال تک اپنے ناتواں کندھوں پر جمہوریت کا بوجھ اٹھا پائے گی اور اس بوجھ کی پہلی کڑی معاشی اور سیاسی زوال سے جڑی ہوئی ہے الیکشن کے بعد ایک موثراور مضبوط حکومت ہی ملک کو چیلنجز سے نکالتی ہے لیکن اگر سابقہ غلطیاں ہی بار بار دہرائی جائیں تو الیکشن کا مقصد ختم ہو کر رہ جاتا ہے اب دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہم نے ملک کو پرانی ڈگر پر چلانا ہے یا ایک مثالی ریاست بنا ہے۔عوام کا کیا ہے آخرش غربت کے ہچکولے کھاتے کھاتے مر جائے گی اور کوزندہ بچ گئے انکا زندہ رہنا نہ رہنا ایک برابر ہے۔
حالات کو بہتری کی طرف لانے کے لئے اسوقت ملک خداداد کو بہت سی چیزیں درکار ہیں جن میں انصاف نظم وضبط احترام انسانیت اور اتحاد کی ضرورت ہے شومئی قسمت ہمارے ہاں یہ چیزیں دستیاب نہیں ہیں پڑوسی ملک میں تو شاید انکی باقیات موجود ہوں لیکن ہمارے ہاں چونکہ ان چیزوں کا فقدان ہے لہذا ہم ایک مرتبہ پھر ایک اور تجربے کی طرف جارہے ہیں نت نئے تجربات سے پچھتر سالوں میں ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
ایک صحافی پہاڑی علاقوں کی سیر پر تھا۔ دوران گفتگو اس نے وہاں سے ایک مقامی شخص سے سوال کردیا۔ کیا تمھارے ہاں جمہوریت ہے؟ مقامی شخص کچھ دیر اس صحافی کو دیکھتا رہا پھر بولا‘ پرائیویٹ سوال ہے پھر بھی بتاو¿ تو۔ صحافی مصر ہوگیا اب مقامی شخص کو غصہ آگیا تمھارے گھر بیٹیاں نہیں ہیں۔ مقامی شخص کو غصہ آگیا صحافی تھوڑا سا حیران ہوا اور بولا بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں جمہوریت اور بیٹی کا کیا تعلق ہے۔ صحافی کی بات پر مقامی شخص کا غصہ قدرے ٹھیک ہوا تو وہ بولا دیکھو پہلے تم یہ بتاو¿ جمہوریت کا نام لینے پر پابندی تو نہیں مقامی شخص نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ارے نہیں کیوں پابندی ہوگی جمہوریت کے حسن سے تو ادارے چلتے ہیں
صحافی بولا؛ کیا چلتا ہے ؟ مقامی شخص کو پھر غصہ آگیا ارے بھائی جمہوریت ایک خوبصورت عمل ہے صحافی نے جواب دیا۔خوچہ تمھارے گھر بیٹیاں نہیں۔ صحافی پھر حیرت میں ڈوب گیا اور بولا تم جمہوریت کے نام پر غصے میں کیوں آجاتے ہو بائی دی وے تمھارا نام کیا ہے صحافی کے سوال پر مقامی شخص بولا۔ میرا نام نظام ہے یہاں سے کچھ فاصلے پر میرا بھائی آمر رہتا ہے اور پھر وہ شخص تھوڑا سا شرمایا اور بولا جمہوریت میرے ساتھ رہتی ہے۔ لا حول ولا قوة اسے تو ملک میں رہنا چاہیے تھا۔بس بیمار ہے کافی عرصہ سے مقامی شخص بولا۔ کیا بیمار ی ہے؟ صحافی نے پوچھا مقامی شخص خاموش رہا ویسے تو کرپشن کا داغ ہی سب سے بڑا داغ ہے جمہوریت کے حسن پر صحافی نے کہا صحافی کی بات پر مقامی شخص پھر تلملا گیا بولا خوچے کتنی دفعہ کہا ہے جمہوریت کے حسن کی بات نہ کرو۔ آخر صحافی سے رہا نہ گیا اور بولا مجھے تم اپنے گھر لے چلو میں بھی تو جمہوریت سے ملوں جو تمھارے گھر میں آئی اور گھر تک محدود ہو کر رہ گئی۔ مزید استفسار پر صحافی کے سامنے یہ عقدہ کھلا کہ جمہوریت اسکی گھر والی کا نام ہے اور یہ نام اسکے دادا رکھ کر گئے تھے۔ جب مملکت خداداد کا نیاا نیا قیام عمل میں آیا اور طے یہ پایا کہ جمہوریت ایک تن آور درخت بن کر ابھرے گی مقامی شخص کی جمہوریت تو بستر مرگ پر لیٹے لیٹے کانٹا ہوگئی تھی ہمارے ہاں بھی پچھتر سالہ جمہوریت تن آور درخت نہ بن سکی پھر وہ عوام کو کیا سایہ دیتی ہر برسر اقتدار آنے والی پارٹی بڑے ذوق و شوق سے جمہوریت کا نعرہ لگاتی ہے لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات دھاندلیاں سیاسی عدم استحکام خود غرضیاں انہیں اور سیاسی رسہ کشی میں ہم نے جمہوری میدان کو اکھاڑہ بنادیا ہے تو پھر عوام کو سایہ کیسے مل سکتا ہے پچھتر سالوں سے یہی ہوتا آیا ہے ایک چہرے ایک ہی نظام اور غلطیاں بھی ویسی ہی۔۔۔تو پھر نتیجے کے طور پر وہی غربت وہی بے روزگاری وہی مہنگائی وہی مایوسی قوم کا مقدر بن جاتی ہے ہمیں اسوقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے سیاسی استحکام سیاسی ترجیحات کی درستگی سے آتا ہے۔
ہمیں سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ہم زیادہ عرصہ نہ تو عوام کے احساسات کے ساتھ کھلواڑ کرسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کو دھوکے میں رکھ سکتے ہیں اس کے بھیانک نتایج میں سب سے پہلا نتیجہ انتشار ہے جو غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرتی ہے ہم اپنی نااہلی کی وجہ سے ملک کو پسماندگی کی طرف لے آئے ہیں ارسطو کا نظریہ ہے کی ایک حکمران کو فلسفی ہونا چاہئیے تاکہ وہ سیاسی معاشی اور نفسیاتی باریک بینیوں کا مطالعہ کر سکے اور قومی مفاد کا تحفظ کرسکے لیکن بد قسمتی سے ایسا حکمران پاکستان کو نہیں ملا یا یہ کہ ایسے شخص کو آنے ہی نہیں دیا جاتا جو ممکت خداداد کے دھانوں پر جمی برف کو پگھلانے کی کوشش کرے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوتے رہتے ہیں برف نہیں پگھلتی ہے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتحال میں ہم بہتر مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں تاریخ نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ اس سے عدم استحکام بڑھتا ہے اور کسی بھی راست کا سفر معکوس اسے زوال کی طرف لے جاتا ہے