الیکشن ہوگئے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی مرضی کے لیڈر ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں تاکہ جو مسائل سابقہ حکومت حل نہیں کر سکی اب اُن سے بہتر لوگ آئیں گے اور عام شہری کے بھی مسائل حل ہوں گے۔ کیا ہمارے ہاں الیکشن کے بعد کبھی ایسا ہوا ہے؟ الیکشن بھی ہوتے ہیں مگر عام آدمی کے مسائل، پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ہاں اشرافیہ ضرور ہر الیکشن کے بعد کروڑوں نہیں اربوں پتی بنتے سب کو نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے خالق اللہ کریم اور اپنے آقا خاتم النبیین کے احکاما ت سے دُوری اختیار کر رکھی ہے۔ حضور خاتم النبیین کا ارشاد پاک ہے : ”اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمہ داری نہیں دیتے جو اس کو طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو اس کا خواہش مند ہو۔“
اب ہمارے ہاں عہدے دھاندلی سے، چور بازاری، پیسوں کی بندر بانٹ کے عوض حاصل کیے جاتے ہیں۔ پھر صرف لُوٹ مار کی جاتی ہے کیوں کہ ان ساری ناجائز کوششوں کے پیچھے مقصد ہی یہ کارفرما ہوتا ہے۔ کوئی صدر کے عہدے کا طلب گار ہوتا ہے، کوئی وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ممبران کی بولیاں لگتی ہیں، سرعام لگتی ہیں۔ عوام کی رائے کا قطعاً احترام نہیں کیا جاتا۔ عوام کے ووٹوں کی جہاں تک ممکن ہو تو ہین کی جاتی ہے۔ خاتم النبیین اور خلفائے راشدین کے ادوار ہمارے لیے رول ماڈل ہیں۔ کیا ہمارے سیاستدان اُن کی زندگیوں اور ان کے سیاسی طرزِ عمل سے واقفیت رکھتے ہیں؟ کوئی شعائر اللہ کا مذاق اُڑاتا ہے۔ کہیں سے آوازیں سُنائی دیتی ہیں کہ ہمارے لیڈر کا استقبال کرنا حج سے بھی زیادہ ثواب کا حامل ہے۔ استغفراللہ! کوئی سرعام مجلسوں میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو ہماری پارٹی کو ووٹ دے گا سیدھا جنت میں جائے گا۔ جنت کا حصول اس قدر اِن کے نزدیک آسان ہے۔ شریعت کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ ان سب کو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ سیاست ایک مقدس نام ہے۔ ہمارے آقا خاتم النبیین اور خلفاءراشدین نے بھی سیاسی طرزِ حکومت سے ملکی معاملات چلائے۔ یہ بھی سیاست ہی تھی کہ عمر فاروق مدینے کی گلیوں میں رات کو بھیس بدل کر گشت کرتے۔ لوگوں سے اُن کے حالات و واقعات اور اپنی طرزِ حکومت کے بارے سوال کرتے۔ لوگ بتاتے پھر آپ اپنے کندھوں پر سامان اُٹھا کر اُن کے گھروں میں دے کر آتے۔ ایسا کیوں کرتے، خوف خدا اور آخرت کا خوف تھا۔ فرمایا : ”میرے عہد میں بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے سوال ہو گا؟“ یہ بھی سیاست تھی۔ بخدا ہم نے تو اُردو لغت میں الفاظ کا مفہوم ہی بگاڑ دیاہے۔ ہمارے ہاں ”سیاست“ کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان اکثر فرماتے ہیں کہ اب ہم اس کام کے بارے ”سیاست“ نہیں کریں گے۔ ”مفاہمت“ کا مطلب مل جل کر چلنا اور مسائل حل کرنا۔ ہمارے ہاں ایک صاحب کو ”مفاہمت“ کا ”بادشاہ“ کہا جاتا ہے۔ جوڑ توڑ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ”مفاہمت کے بادشاہ“ پہلے بھی پانچ سال صدارت کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اب اُن کی پارٹی اُن کو ہی دوبارہ اُسی عہدے پر دیکھنے کی خواہش مند ہے۔ ایک ”صاحب“ کو لندن سے لایا گیا۔ مقدمات بھی ختم کیے گئے وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواہش مند تھے۔ اَب اُن کی صاحبزادی بھی کسی بڑے عہدے کی طلب گار ہے۔ ضروردیا جائے گا۔ ان سب میں عوام آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ یہ سارے مسائل جن کو یہ سیاستدان اب حل کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ بخدا یہ سارے اِن کے ہی اپنے پیدا کردہ ہیں۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی کی ضامن ہے۔ فوج کا عمل دخل سوائے حفاظت کے کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا ہوتا تو صرف ایک ہی پارٹی کو واضح اکثریت ملتی۔ ہر کام میں اپنے سب سے بڑے منظم ادارے فوج کو جان بوجھ کر بدنا م کرنا بھی انہی سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ ووٹ کارکردگی پر ملتے ہیں۔ دوسروں کے سہارے تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بخدا ہمارے سیاستدانوں کی کارکردگی عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں صفر ہے۔ جس ملک میں یہ سیاست دان خود ہی یہ قانون منظور کر لیں کہ پچاس کروڑ تک کی کرپشن کرنا جائز ہے۔ ایسے کرپٹ ”لیڈر“ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکے گا۔ اس کے ساتھ پھر آپ ملکی ترقی کے خواب بھی دیکھیں جو کبھی بھی پورے نہیں ہوں گے۔ عوام کا رونا دھونا بھی کام نہیں آتا۔ ہمارے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہے۔ جمہوریت میں جس کو زیادہ ووٹ ملیں اُس کو پورا موقع دینا چاہیے۔ وہ پانچ سال پورے کرے۔ اگلی بار عوام اُس کی ’کارکردگی‘ کو دیکھ کر اُسے قبول کریں یا رَد کریں۔ ہمارے ہاں مفادات کے حصول کے لیے سب کچھ کیا جاتا ہے۔ ذاتی مفادات کے علاوہ عوام اور ملکی مفاد سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے سیاستدان سرعام بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پوری دنیا کے مقروض ہیں۔ ہمارے ”اشرافیہ“ سیاست کے نام پر اربوں پتی ہے۔ عام شہری ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر ہے۔ کوئی اُس کا رونا دھونا، چیخنا چلانا دیکھنا چاہتا ہی نہیں ۔ جب تک ہر ادارہ ، ہر فرد ایمانداری سے اپنا کردار ادا نہیں کرے گا ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے، اُن میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ ہمارے سیاستدانوں کی توجہ صرف مال بنانے اور ایک دوسرے سے انتقام لینے کی طرف رہتی ہے۔ بخدا عوام کی فکر اُن کو دُور دُور تک نہیں ہوتی۔ ہم دُعائیں تو کرتے ہیں اچھے عمل نہیں کرتے۔ ع عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔
سب سیاستدان اگرایمانداری سے عوام اور ملک کے لیے خلوصِ نیت سے عہدوں کی بھاگ دوڑ سے نکل کر ایک ہو جائیں تو شاید ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں مگر ایسا ہو گا کب؟ ورنہ یہ مرض بڑھتا ہی جائے گا۔