وکلاءتنظیمیں ایسے جمہوری انداز میں پروان چڑھی ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کرآج2024تک ہر سال باقائدگی سے ہونے والے تحصیل کی سطح سے لے کر سپریم کورٹ تک کے انتخابات نتائج بسا اوقات ملک کی سیاسی تاریخ بدلنے میں بھی بڑ اکردار ادا کرتے ہیں۔ایک واقع آپ کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کیلئے پیش ہے۔جب آزادی کے بعد حسین شہید سہروردی پاکستان آئے توانہیں ملک کی کسی بھی بار میں نے رکنیت دینے سے انکارکردیا۔ عاصمہ جہانگیرکے والد ملک غلام جیلانی اگرچہ پیشہ وکالت سے منسلک نہیں تھے مگر اپنے وقت کے بڑے وسیع المشرب اورحکومت مخالف دبنگ سیاسی راہنما تھے۔ملک صاحب اپنے تعلقات کو حرکت میں لائے اورسہروردی صاحب کو کسی بارایسوسی ایشن کارکن بنانے کا اعزاز ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن ساہیوال کے نام لکھوادیا،مگر کئی سال تک انہیں لاہور ہائی کورٹ کی رکنیت نہیں دی گئی۔
ہائی کورٹ کے ایک سالانہ انتخابات میں جنرل سیکرٹری شپ کا مقابلہ نسیم حسن شاہ اورسید افضل حیدر کے درمیان ہوا۔نسیم حسن شاہ اگرچہ تاہ قامت تھے مگر آئین شکن گروہ کے سربراہ تھے۔ نسیم حسن شاہ کے مدمقابل سید افضل حیدرتھے جولاہور ہائی کورٹ بارکے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ انہوں نے سیکرٹری منتخب ہوکراپنے ایک سالہ دور کے اندراندر ہی حسین شہید سہروردی صاحب کو لاہور ہائی کورٹ بارکی رکنیت کی سند عطا کرکے ہائی کورٹ بار کی تاریخ میں اپنانام آئین پرست عہدیدار کی طورپر لکھوالیا۔ اب آئین شکنوں کے مقابلے میں آئین پرست بھی مضبوط ہونا شروع ہوگئے جنہوں نے پھرکسی حکومت کے جبرکی پرواہ نہیں کی۔اس باضمیرگروہ کی سربراہی میاں محمود علی قصوری کے حصے میں آئی جو بلاشک وشبہ اس کے مستحق تھے اوربعد میں عوامی حقوق اورجمہوریت کی سربلندی کیلئے کئی بارجیلوں کے قصائی خانوں کا سامناکیا۔بس یہ بتا کہ سہروردی صاحب کاباب ختم کرتا ہوں کہ "راولپنڈی سازش کیس"جس میں فیض احمد فیض اوران کے ساتھیوں پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اس میں سہروردی صاحب وکیل صفائی تھے۔ان کی ٹیم میں پختوان کے سابق گورنر ارباب سکندر خاں خلیل بھی شامل تھے جو اپنے وقت کے بہترین وکلاء میں شمار ہوتے تھے۔ارباب صاحب نے مقدمے کے فیصلے کے بعدکہاتھا کہ اگر سہروردی وکیل صفائی نہ ہوتے تو یقینا فیض احمد فیض اوران کے تمام ساتھیوں کو سزائے موت ہوجاتی۔
اسی موقع پر فیض نے سہروردی صاحب کے لئے کہاتھا کہ "اللہ کرے زوربیان اورزیادہ "۔میں نے جب ہائی کورٹ بار کے انتخابات کے عمل میں حصہ لینا شروع کیاتویہ 80ءکی دہائی کاآغاز تھا۔ضیاءالحق کے مارشل کا سورج ایساچمک رہا تھا کہ پناہ بخدا۔اسی سورج کی روشنی اورگرمی نے ایک بار پھرآئین شکن عناصرکوہائی کورٹ بارمیں پھلنے پھولنے کاموقع مہیا کردیا۔مگر اب آئین پرست بھی مضبوط ہوچکے تھے اب قائد اعظم اورسہروردی کے راستے پر چلنے والے بھی سینہ تان کرمیدان میں آچکے تھے۔
اسی اثناءمیں ضیاءالحق کے خلاف ہائی کورٹ کے قریب ہی فین روڈ پر میاں محمود علی قصوری کے بنگلے میں "تحریک بحالئی جمہوریت" MRDکے نام سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کاطویل ترین سیاسی اتحادمعرض وجود میں آگیا جس نے نیم مردہ سیاسی کارکنوں میں جذبے کی روح پھونک دی اوردیکھتے ہی دیکھتے پورالاہور ہائی کورٹ بار جمہوری رنگ میں رنگا گیا۔میں نے MRDکے حوالے سے ہائی کورٹ میں پہلاصدارتی معرکہ ملک سعید حسن اورحکم قریشی کے مابین دیکھا۔
ملک سعید حسن بڑے کمال کے آدمی تھے۔شام 6بجے ہی حکم قریشی کو مبارک دے کر گھر روانہ ہوگئے۔جب نتائج کا اعلان ہواتو ملک سعید حسن بڑی اکثریت سے جیت چکے تھے۔MRDکے نام سے جو بھی امیدوار سامنے آتاوہ کامیاب ہوجاتا۔ آئین شکن عناصر تاک میں تھے،جونہی ضیائی مال ومنال سے سرفراز ہوئے تو سازشیں شروع کردیں اوراحمد سعید کرمانی کو صدر منتخب کروادیا۔یہ سال 85ءکے درمیانی کسی عرصے کاتھا۔اب ان لوگوں نے کھل کھیلنا شروع کردیا۔اورروزانہ ہماری نظربندیوں اورگرفتاریوں کویقینی بناتا۔سال بہ سال منتخب ہونے والوں کے نام اس وقت زبانی یاد رکھنا مشکل ہے تاہم آئین پسند ہی زیادہ ترصدر منتخب ہوتے رہے۔
2000ءکے بعد لاہور ہائی کورٹ دوگروپوں میں تقسیم ہوگیا۔حامد خاں گروپ اور عاصمہ جہانگیر گروپ۔دونوں طرف سے صدر منتخب ہونے والے صدوراکثر وپیشتر آئین پسند ہی تھے مگر جب جنرل مشرف کے خلاف تحریک چلی تو عاصمہ جہانگیر گروپ کے منتخب شدہ صدر،ہمارے دوست احسن بھون بار کی صدارت سے سیدھے لاہور ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔آئین پسند حیران رہ گئے۔مگر اب عاصمہ جہانگیر کانام استعمال کرتے ہوئے "بھون گروپ"بن گیا جس میں اعظم نذیر تارڑ بھی شامل تھے۔نئی تقسیم کچھ اس ہوئی کہ آئین پسند وکلاءحامد خاں کی چھتری کے نیچے آگئے اوردوسرے گروہ کوبھون اوراعظم نذیر تارڑ کانام ملا،آئین شکنوں کی موجیں ہوگئیں۔بہت سوں کو عدالتی اورغیر عدالتی نوکریاں ملیں مگر ہمارے محترم رانا مقبول (کسان ہال والے) کے بیٹے راناضیاء عبدالرحمان نے اس طلسم کوتوڑا اورہائی کورٹ بارکے صدر منتخب ہوئے۔آج لاہور ہائی کورٹ بار کے انتخابات ہورہے ہیں PDMکوپتہ نہیں کون راس آتا ہے البتہ آئین پسندوں کی ترجیح یقینا صاف ستھرے کردار کے حامل اسد منظوربٹ ہونگے۔