معزز قارئین !۔ قمری سال کے آٹھویں مہینے شعبان کی 15 ویں رات کو ”شبِ برات“ اور قرآن پاک میں اِسے ”لیلة البراة“ بھی کہا جاتا ہے ۔ (یعنی ۔ مغفرت کی رات)۔ ”بَرات“ کے لُغوی معنی ہیں ”حِصّہ، بخرہ، تنخواہ اور وہ پروانہ اور چٹھی (چیک بھی)۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جائے گی۔ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، شبِ بَرات کو اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر اُتر کر افراد، قوموں اور ملکوں کی قِسمت (عُمروں اور رزق کی تقسیم) کے حکیمانہ اور محکم فیصلے کرکے فرشتوں کے حوالے کردیتے ہیں ۔ اِس رات۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اُن کے گناہ معاف کرنے کے لئے پکارتے ہیں ۔ ”مدینة اُلعلم“ نبی اکرم خاتم اُلنبین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے ارشاد کے مطابق ”بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں (کی تعداد) سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے!“۔
” اقوال حضرت علی مرتضیٰؓ !“
اِس موقع پر ”باب اُلعلم“ حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے فرمایا کہ ”٭صدقہ سے اپنے ایمان، زکوٰة سے اپنے اموال اور دُعاﺅں کے ذریعہ بلاﺅں کے طوفان سے اپنے آپ کو بچاﺅ۔ ٭موت تو جان کی آخری منزل ہے، اِس سے بھاگنا ہی درحقیقت اِس کے پاس جانا ہے ۔ ٭جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اِس کی عزت محفوظ رہتی ہے!“۔
”عاشق رسول، علاّمہ اقبال !“
معزز قارئین ! عاشق رسول، علامہ محمد اقبال نے مملکت اسلامیہ کے ہر قائد (خاص طور پر حکمرانوں کو) ایک راہنما اصول بتاتے ہُوئے فرمایا تھا کہ....
” قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں، اسم محمد سے اُجالا کردے ! “
....O....
معزز قارئین ! علاّمہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور فاضل مقدمات اپنے دوست یا شاگرد وکلاءکے لئے وقف کردیتے تھے ۔
” حضرت قائداعظم !“
14 اگست 1947ءکو پاکستان قائم ہُواتو بانی ¿ پاکستان، حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کی ایک "Trust" بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا اور آپ نے اپنے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی اپنی ہمشیرہ ¿ محترمہ فاطمہ جناح کو ”آل انڈیا مسلم لیگ“ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ”2 جنوری 1965ءکو جب فوجی آمر فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان ( صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ) کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ”پاکستان مسلم لیگ کونسل“ کی امیدوار تھیں اور پھر متحدہ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا امیدوار مقرر کِیا تو ”مفسرِ نظریہ¿ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادرِ ملّت“ کا خطاب دِیا ۔ معزز قارئین! مجھے نہیں معلوم؟ شعبان کی پندرھویں رات کے بعد پاکستان کے بالائی طبقوں (خاص طور پر حکمرانوں) نے چھوٹے طبقوں کے لئے کس کس قربانی کے بارے میں کیا کیا سوچا ہوگا؟
”متحدہ ہندوستان کے شعراء!“
معزز قارئین! متحدہ ہندوستان کے نامور شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں ”شب ِ برا¿ت“ کے بارے عرض کِیا تھا کہ ....
شب برات دکھاوے برس کوں یک نس جوت !
بھنواں ہلال تھے نس دن ہے موجیا روشن !
....O....
شب برات خوشی شادی سوں کیا روشن !
موالیاں کا ہوا جیو کا دیا روشن !
(قلی قطب شاہ)
....O....
چھٹی تک غرض تھی خوشی ہی کی بات !
کہ دن عید اور رات تھی شب برات !
(میر حسن دہلوی)
....O....
نظیر اکبر آبادی نے فرمایا کہ ....
کیوں کر کرے نہ اپنی نموداری شب برات !
چلپک چپاتی حلوے سے ہے بھاری شب برات !
....O....
لڑکوں کے باندھ غول کہیں لڑنے جاتے ہیں!
کرتی ہے پھر تو ایسی دھواندھاری شب برات!
....O....
حلوائی کی دکان پہ دادا کی فاتحہ!
یاں تک تو ا±ن پہ لاتی ہے ناچاری شب برات! ‘ ‘
....O....
نوجوانی کھوکے یوں پیری میں غفلت بڑھ گئی!
صبح کو آتی ہے جیسے نیند شب بیدار کو!
(غلام علی ہمدانی مصحفی)
....O....
سمجو اس شب کو شب برات کی رات !
ہم ہیں مہماں تمہارے رات کی رات !
(مرزا شوق لکھنوی)
....O....
ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید !
سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے !
(حیدر علی آتش)
....O....
حیراں نہ میری بھول پہ ہوں خفتگان خاک !
مجبور خود ہوں میں بہ زبان شب برات !
(حسرت موہانی)
....O....
خاک میں ملتی ہے جوانی آج !
سمجھ اس کو شب برات کی رات !
(عبد الماجد دریابادی)
....O....
شب برات جو آئے تو دیکھیو انشا !
کہ مچ رہی ہے پٹاخوں کی کیا چٹاخ پٹاخ !
(ابن انشا)
....O....
کیوں ہیں اشک اپنے پھلجھڑی کی طرح!
شب ِ فرقت شب ِبرات نہیں !
(امام بخش ناسخ)
....O....
”رسم آتش بازی !“
معزز قارئین ! تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن، میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے "National Guards" کو دہشت گرد ہندوﺅں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے ”لٹھ بازی“ سِکھایا کرتے تھے۔ ہم نابھہ میں ہندوﺅں کے محلے میں رہتے تھے۔ مَیں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میری عُمر 11 سال تھی۔ 14 اگست 1947ءسے پہلے میرے چچا رانا فتح محمد چوہان (شہید) اور پھوپھا چودھری محمد صدیق بھٹی (شہید) نے مجھے شب برا¿ت کے موقع پر آتش بازی لا کر دِی۔ مَیں اپنے دو مسلمان دوستوں محمد نذیر اور بشیر احمد کے ساتھ آتش بازی کھیل رہا تھا کہ ”ہمارے ایک پڑوسی (کانگریسی مولوی) صاحب محمد نواز نے میرے چچا سے کہا کہ ”تم اپنے بھتیجے کو، ”بدعت “ کیوں سِکھا رہے ہو؟“۔ اِس پر میرے چچا بولے کہ ”ہم ہندو لڑکوں سے ہولی اور دیوالی کے موقع پر آتش بازی کا مقابلہ کر رہے ہیں !“ ۔
”.... مسلم لیگ میں آ! “
معزز قارئین ! ہمارے محلے میں ” آل انڈیا مسلم لیگ“ کے ایک کارکن محمد لطیف خان بھی رہتے تھے، جب وہ، کانگریسی مولوی اُن کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ اُسے مخاطب کر کے گایا کرتے تھے کہ ....
” مسلم ہے تو، مسلم لیگ میں آ !
نئیں تے جا، خصماں نُوں کھا!
....O....