ہفتہ‘ 13 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 24 فروری 2024

سڑکوں پر اپنے زورِ بازو سے آوں گا، مولانا فضل الرحمن
پاکستان کی تاریخ کے بڑے بڑے فیصلے مولانا فضل الرحمن کی ہاں اور نہ کے محتاج ہوا کرتے تھے۔مولانا جو دھار لیتے ہیں دوسرے لفظوں میں اپنی آئی پر آجاتے ہیں تو اپنی منوا کر ہی دم لیتے ہیں جو کہہ دیاسود و زیاں سوچے بغیر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔اپنے کہے کو پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے لیکن ضدی اکھڑ اورلکیر کے فقیر بھی نہیں ہیں جب قائل ہو جاتے ہیں تو رویے میں لچک دیکھنے میں آجاتی ہے۔ حکومت سازی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے سے انکار کیا پھر ان کی طرف سے کہا گیا کہ بلوچستان میں تو ساتھ مل کر چل سکتے ہیں اسحاق ڈار کا جواب تھا بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔ عبدالغفور حیدری کا بیان لذت ناتمام ثابت ہوا۔ بڑے مولانا 2018ءکے انتخابات کے بعد 2024ءکے انتخابات کو بھی دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ابھی تک وہ پیمانہ سامنے نہیں آیا جس سے ناپا جا سکے کہ زیادہ دھاندلی مولانا کے مطابق 2018ءکے انتخابات میں ہوئی یا 2024ءکے انتخابات میں۔چند روز قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ اب فیصلے میدان میں ہوں گے۔دکھی لوگوں کو پرسا دینے اور زخم خوردہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بھی شہرت رکھتے ہیں۔ 2018ءکے انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کو مظلوم سمجھا تو اس کا ساتھ دیا۔ اب مولانا تحریک انصاف کو جبرزدہ سمجھتے ہیں تو احتجاج کی حد ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے حالانکہ کل تک دنیا کو یاد ہے مولانا ،عمران خان کو کیا کہتے تھے اور عمران خان مولانا کے بارے میں کیا ریمارکس سرعام پاس کیا کرتے تھے۔ مولانا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سڑکوں پر اپنے زور بازو سے آوں گا۔
مولانا کئی بار سڑکوں پر آچکے ہیں عمومی رائے یہی ہے کہ مولانا ہر دفعہ اپنے زور بازو پر ہی سڑکوں پر آئے ہیں اب مولانا کو یہ کہنے کی کیا ضرورت پیش آگئی کہ اپنے زور بازو پر ہی سڑکوں پر آﺅں گا۔مولانا کی ایسی دھمکیوں پر حکومتیں لرزجایا کرتی تھیں لیکن نگران حکومت کے کانوں تک جوں بھی نہیں رینگی۔مولانا سڑکوں پر آئیں گے تو نئی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے نگرانوں کو کیا ہے ؟ سانوں کیہ! وہ خود کو اگلی نگرانی کے لیے تیار کر رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
ڈھائی سال بعد اشرف غنی منظر عام پر آگئے
اشرف غنی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ایک شب کے دسویں حصے میں تاریخ بدلنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ان کی طرف سے نہ صرف یہ کہ تاریخ بدلی گئی بلکہ نئی تاریخ بھی رقم کی گئی۔ابھی یہ بحث ہو رہی تھی کہ اشرف غنی افغان فوج کے بل بوتے پر طالبان کو ٹف ٹائم دیں گے اور طالبان کا تسلط قبول نہیں کریں گے۔اپنے اقتدار کو کئی سال تک کھینچ لے جائیں گے۔امریکا کے واپسی کے اعلان کے بعد افغان فوج تتربتر ہورہی تھی۔صدر اشرف غنی کی طرف سے فوج کو متحد رکھنے کی اپنی سی کوشش کی گئی پولیس کو بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا لیکن طالبان ایسے زور میں آئے کہ نہ کہیں پولیس نظر آرہی تھی نہ افغان فوج کا کہیں وجود دکھائی دے رہا تھا۔میڈیا کے بل بوتے پر یہی تاثر دیا جا رہا تھا کہ اشرف غنی زندگی کی آخری سانس تک مقابلہ کریں گے۔پھر اچانک اعلان ہوتا ہے کہ اشرف غنی اپنا ملک چھوڑ گئے۔کہاں گئے اس حوالے سے کئی افواہیں گردش کرتی رہیں۔اب وہ سعودی عرب میں کہیں جا کر نمودار ہوئے ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ عمرہ کرنے وہاں گئے تھے۔ڈھائی سال وہ کہاں رہے ؟اس بارے میں تاریخ اسی طرح خاموش ہے جس طرح اشرف غنی کا رات کے اندھیرے میں افغانستان چھوڑ جانا۔ جو لوگ اشرف غنی کی طرح امریکا کا ساتھ دیتے رہے ان لوگوں نے دیکھا کہ طالبان حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں تو انھوں نے افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی۔کئی تو ایسے سائنسدان تھے جو جہاز کے پروں سے جھول گئے ٹائروں کو پکڑ کر لٹک گئے۔جبکہ اشرف غنی بڑے اہتمام سے اپنے ملک سے فرار ہو تے ہوئے 169 ملین ڈالر کی رقم بھی ساتھ لے گئے تھے۔ وہ طالبان کے کابل پر قبضے کے دن 15 اگست 2021ءکو ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ازبکستان اور امارات میں موجود رہے۔اب طالبان حساب بے باق کرنے کے لیے ان کو اپنے ملک لانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار ہوں گے
پارٹی کے بڑے لیڈر اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اور سابق ہی پاکستان کے چار سالہ مدتی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی 8 فروری کے انتخابات میں ملتان سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت سازی میں اتحاد ہو چکا ہے سر دست وزارتیں لینے سے انکار کیا گیا ہے لیکن یہ پتھر پر لکیر نہیں ہے کسی وقت بھی پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہم نوالہ وپیالہ ہو کر شامل اقتدار بھی ہو سکتی ہے یوسف رضا گیلانی کو بڑا عہدہ دیا جا سکتا ہے سوائے وزیراعظم کے عہدے کے۔الیکشن میں حصہ لینا کوئی آسان مشق نہیں ہوتی یوسف گیلانی اس مشق سے گزر چکے ہیں وہ سینیٹر بھی ہیں تو کیا انھوں نے انتخابات میں حصہ وزیراعظم بننے کے لیے لیا تھا یا اپنی سیاسی قوت کا اظہار کرنے کے لیے۔اب ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔وہ اس وقت بھی بڑے مضبوط امیدوار تھے جب ان کو قومی اسمبلی کی طرف سے سینیٹر چنا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت تھی حفیظ شیخ وزیر خزانہ تھے لیکن یوسف رضا گیلانی حکومتی وزیر اور امیدوار کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہو گئے تھے۔اس پر تحریک انصاف کو پرلے درجے کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حصے میں ارلے درجے کی سرخروئی آئی تھی۔اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہوتے ہیں اسی ذوق یقین کے ساتھ یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار بن کر سامنے آتے ہیں۔
خفیہ ووٹنگ سے قبل 64 فاضل سینیٹرز نے کھڑے ہو کر یوسف رضا گیلانی کا ساتھ دینے کا عہد اور اظہار کیا۔یہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے متفقہ امیدوار تھے۔ مقابلے میں حکومت پارٹی تحریک انصاف تھی جس کو یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر بننے کی سبکی کا سامنا ہو چکا تھا۔خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے تو 14 ووٹر کھسک چکے تھے لہٰذا یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بننے سے رہ گئے صادق سنجرانی اس عہدہ جلیلہ پر اب تک متمکن ہیں۔کسی بھی عہدے کے لیے شخصیت اور پارٹی مضبوط نہیں ہوتی مضبوطی کا فیصلہ حالات کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب کے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کیا ہوتا ہے تا ہم یہ عہدہ اور سینیٹ کا الیکشن ہنوز دلی است۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...