بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
رحمت خداوندی بہانہ تلاش کرتی ہے چنانچہ بارگاہ ایزدی سے انسانوں کو وقتاً فوقتاً ایسے مواقع حاصل ہوتے رہتے ہیں جن میں ان کے اعمال اور عبادات کا اجر وثواب کئی گنا غیر معمولی رکھا گیا ہے۔ یوں تو شب و روز اللہ کے نیک بندے اپنے معبود حقیقی سے لو لگائے رہتے ہیں اور ان پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے مگر ایک خاص شب جس میں رب العالمین دنیائے آسمان پر نزول فرماکر اپنی رحمت اور ربوبیت کااظہار فرماتا ہے وہ شب برأت کہلاتی ہے۔شب برأت چودہ شعبان کا دن گزار کر آنے والی وہ ایمان افروز اور رحمت افشاں رات ہے جو پاک ہے اور بندگان خدا کوگناہوں سے پاک کرتی ہے۔ شب عرفہ، شب عیدین اور شبِ قدر کی طرح اس مبارک رات کی نوعیت بھی مسلمہ ہے۔ ایک حدیث کے مطابق حضورؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ مبارک راتوں کی طرح شب برأت کو بھی اپنے بندوں پر رحمت اور خیر کے دروازے کھول دیتا ہے یہ ایک ایسی بخشش کی رات ہے جس میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے سے سکون قلب اور بالیدگی ء روح کی ابدی دولت حاصل ہوتی ہے۔ اس رات میں ایسے قیمتی اور نایاب لمحات رکھے گئے ہیں جو زندگی میں صرف خوش بختوں کو ہی نصیب ہوتے ہیں جو لوگ شب برأت کو رجوع الی اللہ کر کے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ان کے لئے بخشش کی یقینی بشارت موجود ہے چونکہ اس رات کو رحمت خداوندی اپنی تمام تر عنایات کے ساتھ مخلوق پر متوجہ ہوتی ہے اور گناہ گاروں کی مغفرت ہوتی ہے اس لئے اس کو شب برأت یعنی قید و عذاب سے بریت کی رات کہتے ہیں۔ البتہ شرک کرنے والوں۔ ناحق قتل کرنے والوں۔ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والوں۔ شرابیوں۔ جواریوں۔ جادوگروں۔ کینہ پروروں۔ زانیوں۔ سْود خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو اس نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ حیات و اموات کے فیصلے اسی رات کو پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اور رزق کی تقسیم بھی اسی رات کو ہوتی ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ نیچے آسمان پر تجلی فرماتا ہے اور طلوع فجر تک ندائے عام ہوتی ہے کہ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ اْسے رزق دیا جائے۔ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اْس کی مغفرت کی جائے اور ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اْسکی مصیبت دور کی جائے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس مبارک رات میں اللہ کو راضی کرتے ہیں اور اْسکی رحمتوں اور برکتوں سے جھولیاں بھرتے ہیں۔ اْم المئومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات حضورؐ کو بستر پر موجود نہ پا کر تلاش کے لئے جنت البقیع کی طرف گئیں اور وہاں دیکھا کہ آپؐ عبادت میں مشغول ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا آج شعبان کی پندرھویں رات ہے اس رات اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اپنی مخلوق پر تجلی فرما کر بنی کلب قبیلہ (جس کے پاس اس زمانے میں سب سے زیادہ بکریاں ہوتی تھیں) کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں یعنی بے حد وحساب مخلوق کے گناہ بخش دیتا ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے کہ" رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔اس ماہ کی پندرھویں رات کو جاگ کر گزارو۔نوافل ادا کرو اور دن کو روزہ رکھو"۔ رمضان کے سوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپ ؐسب سے زیادہ روزے رکھاکرتے تھے۔ بلکہ شعبان کو پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے ہوئے گزر جاتا تھا لیکن آپؐ کا یہ طرز عمل گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا۔عام مسلمانوں کے بارے میں ارشاد نبویؐ تھا کہ وہ ایسا ہر گز نہ کریں کیونکہ خدشہ تھا کہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں میں شعبان کے مزید روزوں کا اضافہ آپؐ کی اْمت پر ایک بوجھ بن جائے گا۔ ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھنے کی ایک وجہ حضورؐنے یہ فرمائی کہ" ماہ شعبان میں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب پیش کئے جائیں تو میں روزہ کی حالت میں ہوں"۔حضرت علی المرتضٰیؓ برأت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ" اس رات جو دعا اللہ سے مانگو وہ قبول ہو جاتی ہے"۔ چنانچہ آپ بھی رات کو کھلے آسمان کی طرف دیکھ کر بہت دیر تک دعائوں میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت اسامہ فرماتے ہیں"شب برأت کو اعمال کا حساب ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جب اعمال کا حساب بارگاہ ایزدی میں پیش ہو رہا ہو تو میں سر بسجود ہوں اور بروقت ندامت اور عبادت کام آ جائے"۔اس عظیم الشان رات کے بارے میں غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا "بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں مگر وہ کفن پہننے والے بازاروں میں خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں اور موت سے غافل ہیں۔ بہت سے لوگوں کی قبریں کھد چکی ہیں مگر دفن ہونے والے غفلت میں ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں"۔ حدیث میں ہے کہ اس رات کو جو شخص چار رکعت نفل ادا کرے اور ہر رکعت میں پچاس بار سورئہ اخلاص پڑھے یعنی چار رکعت میں کل دو سو بار سورئہ اخلاص پڑھے اور پھر دن کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہت سے گناہ معاف فرما دے گا۔ تاہم ہر حال میں اللہ کی بندگی و اطاعت کرنے کا نام ہی عبادت ہے اور خصوصی طور پر شب برأت میں عبادت کر کے اس کی برکات و فیوض سے بہرہ ور ہونا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں مانگنا ایک اچھا اور مستحسن فعل ہے جس کے کرنے سے نہ صرف ثواب حاصل ہوتا ہے بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے۔بدقسمتی سے بعض نادان مسلمان اس مقدس اور بابرکت رات سے اخروی فوائد حاصل کرنے کی بجائے ہندوانہ رسموں کی نذر کر دیتے ہیں۔ آتشبازی۔ چراغاں کرنا۔ پٹاخے چلانا اور حلوے پوڑی کھا کر کھیل تماشوں میں وقت ضائع کرنا تمام جاہلانہ رسوم ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل کی گئی ہیں۔ قریب کے زمانے میں تمام رسوم کی فکری امامت کا سرچشمہ ہندئوں کے ہاتھ میں رہا ہے گو کہ صوفیائے کرام نے کافی حد تک ان کا قلع قمع کر دیا تھا تا ہم آج بھی بعض رسم و رواج ہمارے بیشتر مسائل اور الجھنوں کاباعث ہیں جن سے نجات کیلئے ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔