مولانا محمد امجد خان
اللہ تعالی کو اپنے آخری نبی اور محبوب کل جہاں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ کی نسبت سے اس امت سے بڑی محبت ہے اللہ تعالی نے جہاں اس امت کو بہت سے فضائل اورخصائص سے نوازا وہیں پر مکان وزمان کے لحاظ سے بھی پہلی امم پر فضیلت بخشی ۔مثلا پہلی امم کی عبادت کے لئے مخصوص جگہیں تھیں جبکہ اس امت کے لئے پوری زمین کو عبادت گاہ قرار دیا۔ چنانچہ زمین کے ہر پاک حصے پرمسلمان عبادت کر سکتا ہے پہلی امم کے لئے طہارت کاذریعہ صرف پانی تھا جبکہ یہ امت پانی نہ میسر آنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرسکتی ہے اسی طرح زمانے کے لحاظ سے مہینوں میں افضل رمضان المبارک دنوں میں افضل جمعۃ المبارک اور یوم عرفہ راتوں میں افضل لیلۃ القدر،شب برأت اور عرفہ کی رات اور سال کا بہترین عشرہ ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن اس امت کو عطا فرمائے۔ ان با برکت ایام میں جو وقت کے لحاظ سے تو مختصر لیکن ثواب کے لحاظ پہلی امتوں کے نیکوکاروں کی طویل زندگی کی مقبول عبادات سے بڑھ کر ہیں یہ ایسے ہی ہے کی پہلی امم نے منزل تک پہنچنے کے لئے پیدل سفر کیا اور تکالیف برداشت کیں اور ثواب میں بھی پیچھے رہے۔ جبکہ پروردگار نے اس امت کے لئے منزل تک پہنچنے کے لئے کم عمری کی وجہ سے ہوائی سفر کا انتظام کیا اور آخرت میں ثواب ودرجات کے لحاظ سے بھی سب پر فضیلت بخش دی ۔ا للہ پاک کا یہ احسان ہے، شب برأت بھی ان با برکت اوقات میں سے ایک ہے جس میں امت مسلمہ مختصر سے وقت میں بہت کچھ پروردگار کے در سے حاصل کرسکتی ہے۔
شعبان کی پندرھویں شب،شب برأت کہلاتی ہے یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گنا ہوں سے بری کر دیا جا تا ہے،پندرہ شعبان کی اس رات کو اللہ تعالی اپنی شان کے مناسب آسمان ِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بندوں کو پکار پکار نوازا جاتا ہے، اس امت کو معاف کرنے اور عطا کرنے مختلف مواقع دئیے ہیں،جس میں بندہ اللہ تعالی کے حضور معافی مانگے تواللہ تعالی اس کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے گا۔چنانچہ شبِ برات ان ہی عظیم مواقع میں سے ہے جس میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں اور عفو و درگزر کا معاملہ کیا جاتا ہے۔شبِ برأت کے بارے میں امت میں افراط و تفریط بھی پایا جاتا ہے۔
اعتدال یہ ہے کہ جو فضیلت اس کی بیان کی گئی اس کو تسلیم کیا جائے اورجس قدر وارد ہوئی اسی قدر مانی جائے۔شبِ برات سے متعلق بہت ساری حدیثوں کے پیشِ نظر علماء ومحدثین نے اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور اس رات کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کیا۔چناں چہ علامہ عبدالرؤف مناوی نے امام ابن تیمیہ کا قو ل نقل کیا ہے ترجمہ: نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں اتنی احادیث اور آثار مرو ی ہیں جن سے معلوم ہوتا کہ اس کو فضیلت حاصل ہے اور بعض سلف نے اس رات کو نماز کے لئے خاص کیا ہے(فتح القدیر)۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک رات انہوں نے رسول اللہؐ کو بستر پر نہ پایا تو بہت پریشان ہوئیں اور ڈھونڈتے ہوئے مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کی طرف نکل گئیں،وہاں دیکھا کہ آپؐ موجود ہیں استفسار پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی شعبان کی درمیانی شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنو کلب (ایک قبیلہ جو عرب کے تمام قبائل میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا)کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔(ترمذی)
معارف الحدیث میں حضرت مولانا منظور نعمانی فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو کلب کی 60ہزار بکریاں تھیں اب بکریوں کی تعداد تو لوگوں نے گن لی لیکن انکے بالوں کی تعداد خالق دوجہاں ہی جانتا ہے کہ کتنی ہو سکتی ہے اس سے بھی زیادہ لوگوں کو بخشنا اور پروانہ مغفرت عطاکرنا اس امت پر کریم ذات کا کتنا بڑا احسان ہے اللہ تعالی ہمیں بھی ان بخشے ہوئے بندوں میں شامل فرمائے امین۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک پکا رنے والا پکارتا ہے کہ کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں ہے کوئی پریشان حال کہ اسکی پریشانی دور کروں ہے کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اس کوعطا کردوں،ہے کوئی بیمار کے اسے شفاء عطاء کروں ہے کوئی تنگدست کہ اسکی روزی وسیع کروں اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بد کار عورت اور مشرک کے۔(فضائل الاوقات للبیہقی)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ راوی ہیں کہ: حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا:شعبان کی درمیانی شب اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سوائے کینہ پرور اور خود کشی کرنے والے کے تمام بندوں کو معاف کردیتے ہیں۔(مسند احمد)حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں میں نے اس رات حضور نبی کریمؐ کو طویل سجدہ کرتے ہوئے پایا میں نے کان قریب کیا تو آپؐ اپنے پروردگار کے حضور یہ دعا مانگ رہے تھے۔ترجمہ:میں پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کے ذریعے تیری پکڑ سے اور تیری رضاء کے ذریعے تیری ناراضگی سے اور پناہ میں آتا ہوں تیری اور حق تو یہ ہے کہ میں تیری تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتا۔حضرت علی ؓ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیا کرواور دن میں روزہ رکھا کرو۔
ایک روایت میں ہے کہ اس رات چار اشخاص کی مغفرت نہیں ہوتی۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔
مذکورہ بالا احادیث میں اس رات میں جو خصوصی معاملہ رحمت او رمعافی کا ہوتا ہے اس کو ذکر کیا گیا اسی طرح یہ بھی بتادیا کہ اس عظیم رات میں اللہ تعالی کی رحمت سے کون کون لوگ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے محروم رہیں گے۔اس موقع پر ہم ایک نظر ان گناہوں پر ڈالتے ہیں جو اس عظیم رات میں بھی محرومی کا سبب بنتے ہیں۔مختلف احادیث میں ذکر کئے گئے گناہوں کو جمع کریں تو درج ذیل گناہ ہیں جن کے مرتکب افراد مغفرت اور معافی سے محروم رہتے ہیں۔(1)اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے۔(2)کینہ رکھنے والا۔(3)کسی انسان کا ناحق قتل کرنے والا۔(4)بدکار عورت۔(5)قطع رحمی کرنے والا۔(6)تہبند،یا پاجامہ،ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔(7) والدین کا نافرمان۔(8)شراب نوشی کا عادی(9)کینہ پرور۔
کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ اس رات یہ افراد بخشش کے دریا سے محروم رہتے ہیں حالانکہ دیگر بندوں کی بخشش کے فیصلے ہورہے ہیں۔
اس رات نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کے حضور سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے، صلوۃ التسبح کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، اکابر سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے درود پاک اور استغفار کی کثرت کرنی چاہیے اور گناہوں کے دلدل سے نکلنے کی بھی صدق دل سے دعا مانگنی چاہیے اور دن کو روزہ رکھنا چاہیے یہ روزہ مستحب ہے۔ پیر طریقت حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب نوراللہ مر قدہ اکابرین سے ایک عمل منقول فر ماتے ہیں کہ اس رات کو مغرب کی نماز کے بعد سورۃ یٰسین تین مرتبہ پڑھنی چاہیے پہلی مرتبہ نیک اعمال والی لمبی زندگی کی۔دوسر ی مرتبہ ازمائشوں اور بلاؤں سے حفاظت۔تیسری مرتبہ اللہ رب العزت کے سوا ء کسی کا مختاج نہ ہو نے کی نیت سے پڑھنی چاہیے اور اس کے بعد ایک دعا جس کرترجمہ یوں ہے۔
اے اللہ،اے احسان فر مانے والے،تجھ پر احسان نہیں کیا جا تا۔اے عزت اور بزرگی والے،اے قدرت اور انعام والے، تیرے سواکو ئی معبود نہیں تو پناہ لینے والوں اور امان طلب کر نے والوں اور ڈر ے ہوؤں کی پناہ ہے،اے اللہ اگر تونے اپنی کتاب تقدیر میں میرا بد بخت ہونا یا نامْراد یا مردود ہونا اور میرے رزق کا تنگ ہو نا لکھا ہے تو اے اللہ اپنے فضل سے میری بد بختی اور میری محرومی اورمیری نامْرادی اورمیرے رزق کی تنگی کے فیصلے کو مٹا دے اور اپنی کتاب میں میرے لئے نیک بخت ہونے،کشادہ رزق پانے اور نیکیوں کی توفیق پانے کا فیصلہ لکھ دے،کیونکہ تونے اپنے بھیجے ہوئے نبیؐ پر نازل کردہ کتاب میں فر ما یا ہے اور تو سچ ہی فر ما تا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتاہے لکھ دیتا ہے اور اْسی کے پاس کتاب تقدیر ہے،اے اللہ تْجھ سے اْس تجلی کے واسطے سے (سوال کر تا ہوں)جو شعبان کی پندرھویں رات میں (جس میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جا تا ہے)نازل ہوتی ہے کہ تو ہم سے ہرمصیبت ٹال دے جو ہم جانتے ہیں اور جو ہم نہیں جانتے اور جس کو تو زیادہ جانتا ہے،بے شک تو ہی عزت وبزرگی والا ہے اور درود سلام ہو ہمارے آقامحمدؐ اور آپؐ کی آل اور اصحاب پر۔اللہ تعالی دونوں جہانوں میں ہمیں نیک اور بخشے ہوئے لوگوں میں شامل فرمائے۔ امین