حقیقت یہی ہے کہ محترمہ عائشہ جلال اور چند بھارتی اور مغربی انشوروں نے کابینہ مشن پلان کے حوالے سے نظریہء پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، بالخصوصسقوط ڈھاکہ کے بعد جس انداز میں متحدہ ہندوستان کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ، اُسے میں قابل مذمت ہی سمجھتا ہوں کیونکہ تحریک پاکستان کے آخری دور میں برطانوی حکومت ہند کی جانب سے کبھی متحدہ ہندوستان اور کبھی کابینہ مشن پلان کے حوالے سے ریاستی دبائو استعمال کرنے کے باوجود قائداعظم نے برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے ہی کابینہ مشن پلان کی تائید اِسی لئے کی تھی کہ اِس اسکیم میں بھی دس برس کے بعد ایک وسیع تر پاکستان کی آزادی پنہاں تھی لیکن جواہر لال نہرو نے مستقبل میں کابینہ مشن پلان کے منفی اثرات ہندو اکثریت پر پڑنے کے باعث اِس اسکیم سے پہلو تہی اختیار کی اور تحریک پاکستان کا یہ عارضی باب اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔ اِسی طرح بانیان پاکستان کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے میں چوہدری رحمت علی کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اِسی طرح حصول پاکستان کیلئے تقسیم ہند سے قبل بانیانِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنیوالی چند دیگر جماعتوں سے منسلک کچھ دانشور بھی قائداعظم کی ذاتِ گرامی کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اِن دانشوروں کی تحقیق کو پاکستان مخالف حلقوں میں تو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔
لیکن اُنہیں اِس اَمر پر ضرور غور و فکر کرنا چاہیے کہ اُنکی اِس جسارت کے باعث ہماری نئی نسل کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ازلی دشمن نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ابھی تک خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عملدرامد کیلئے تیار ہوا ہے بلکہ بدستور اکھنڈ بھارت کے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔ سول سوسائیٹی میں یہی سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کیا سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے محض مفروضوں اور چند بھارتی و مغربی تھنک ٹینکس کی ڈِس انفارمیشن کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان کی تمام تر well documented جدوجہد پر پانی پھیر کر نئے تاریخی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ جب تک ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محب وطن موجود ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہی ہے کہ مخصوص سیاسی مفادات کے حامل افراد کی جانب سے سقوط ڈھاکہ کے بعد بانیانِ پاکستان کے خلاف نا قا بل فہم نظریات کو ہوا دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر زند ہ و پائندہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لہذا محض جدید تحقیق کے نام پر بانیانِ پاکستان کی بے مثال خدمات کو نہ تو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے مقام کو کم تر کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں میں اپنوں کی توجہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور کانگریس پارٹی کے سابق صدر مرحوم جواہر لال نہرو کے ایک سیاسی تجزیہ پر مبذول کرانا چاہوں گا جسے تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ’’ تلاشِ ہندوستان‘‘ میںجو علامہ اقبال کی وفات کے کافی عرصہ بعد 1944-45 میں احمد آباد قلعہ میں قید کے دوران لکھی گئی ،میں لکھا ’’ مسلمان عوام اور متوسط طبقے کی ذہنیت کی تشکیل واقعات نے کی تھی لیکن موخر الذکر طبقے خصوصاً نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔
ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے ۔ وہ اپنے زمانے کے حالات اور مسلمانوں کے جذبات سے متاثر ہوئے اور خود اُنہوں نے اُن کے جذبات پر اثر ڈالا اور اُنہیں اور شدید تر کر دیا لیکن وہ عوام کی قیادت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک عالم شاعر اور فلسفی تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اہم حصہ لیا تھا لیکن ہندوستان کی اِس قومی تحریک میں ہندوئوں کا غلبہ تھا اور اِس پر اُن کا ہی رنگ چھایا ہوا تھا ، اِس لئے مسلم ذہن میں ایک کشمکش پیدا ہوئی اور بہتوں نے تفریق کا راستہ اختیار کیا جس کی طرف اقبال کے فلسفے اور شاعری نے اُن کی رہنمائی کی تھی ‘‘ ۔
علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل جواہر لال اقبال کی بیماری پر عیادت کیلئے اقبال سے ملاقات کیلئے آئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب میں کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’میرے رخصت ہونے سے ذرا دیر پہلے اُنہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میں اور جناح میں کیا چیز مشترک ہے ؟ وہ (جناح) ایک سیاست دان ہیں اور تم (نہرو) ایک محب وطن ! مجھے اُمید ہے کہ مجھ میں اور جناح میں اب بھی بہت کچھ مشترک ہو گا لیکن محب وطن ہونا اب کوئی قابل تعریف چیز نہیں سمجھی جاتی ... ہاں اقبال کا یہ خیال یقینا درست تھا کہ میں کچھ زیادہ سیاست دان نہیں ہوں‘‘ ۔ جواہر لال کے تجزیہ کے بعد اِس اَمر کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ علامہ اقبال بیماری کے باوجود قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تاریخی خطوط کے ذریعے آخری دم تک مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد میں دامے درمے سخنے شامل رہے۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے دس ماہ قبل 21 جون 1937 میں قائداعظم کے نام جو خط لکھا ، اُس کے مندرجات سے ہی علامہ اقبال کی حصول پاکستان کی تحریک سے دلی وابستگی کی دلیل مل جاتی ہے ۔ اُنہوں نے قائداعظم کو اپنے مکتوب میں لکھا ’’ مسلم صوبہ جات کی علیحدہ فیڈریشن ، واحد ذریعہ ہے ، ہندوستان میں امن و امان کے استحکام کا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ سے بچانے کا ، شمال مغربی اوربنگالی مسلمانوں کا کیوں نہ حقِ استصواب کا مستحق جانا جائے جس طرح ہندوستان کے اندر (ہندوئوں) یا باہر دوسری قوموں کو دئیے جانے کا کہا جاتا ہے\\\" ۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے لاہور میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ آج علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا ہے کیونکہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے وہی کچھ کیا ہے جو وہ چاہتے تھے تو پھر علامہ اقبال کے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کس کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے نکالا جاتا ہے ؟
اندریں حالات نظریہء پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم اور علامہ اقبال کی ہرزہ سرائی کرنیوالے اکابرین سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ بانیان پاکستان کی سیاسی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ا پنی غلطیوں کا احساس کریں اور بانیان پاکستان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کریں۔ مجلس احرار نے قائداعظم کے اصولی موقف کی ہمیشہ ہی مخالفت کی تھی لیکن امیر شریعت سید عطا شاہ بخاری نے پاکستان بننے کے بعد لاہور میں مجلس احرار کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ کر اپنی جماعت کو توڑنے کا اعلان کیا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُنکی غلطی تھی ۔ قائداعظم کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم ایک عہد آفریں شخصیت تھے، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جو پاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا ۔ یقینا قائداعظم کا پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اُنکے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ میں اسٹینلے والپرٹ Stanley Wolpert کے اِن خوبصورت جملوں کیساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہو ں:
\\\" Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Mohammad Ali Jinnah did all three.\\\"
لیکن اُنہیں اِس اَمر پر ضرور غور و فکر کرنا چاہیے کہ اُنکی اِس جسارت کے باعث ہماری نئی نسل کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ازلی دشمن نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ابھی تک خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عملدرامد کیلئے تیار ہوا ہے بلکہ بدستور اکھنڈ بھارت کے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔ سول سوسائیٹی میں یہی سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کیا سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے محض مفروضوں اور چند بھارتی و مغربی تھنک ٹینکس کی ڈِس انفارمیشن کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان کی تمام تر well documented جدوجہد پر پانی پھیر کر نئے تاریخی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ جب تک ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محب وطن موجود ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہی ہے کہ مخصوص سیاسی مفادات کے حامل افراد کی جانب سے سقوط ڈھاکہ کے بعد بانیانِ پاکستان کے خلاف نا قا بل فہم نظریات کو ہوا دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر زند ہ و پائندہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لہذا محض جدید تحقیق کے نام پر بانیانِ پاکستان کی بے مثال خدمات کو نہ تو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے مقام کو کم تر کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں میں اپنوں کی توجہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور کانگریس پارٹی کے سابق صدر مرحوم جواہر لال نہرو کے ایک سیاسی تجزیہ پر مبذول کرانا چاہوں گا جسے تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ’’ تلاشِ ہندوستان‘‘ میںجو علامہ اقبال کی وفات کے کافی عرصہ بعد 1944-45 میں احمد آباد قلعہ میں قید کے دوران لکھی گئی ،میں لکھا ’’ مسلمان عوام اور متوسط طبقے کی ذہنیت کی تشکیل واقعات نے کی تھی لیکن موخر الذکر طبقے خصوصاً نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔
ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے ۔ وہ اپنے زمانے کے حالات اور مسلمانوں کے جذبات سے متاثر ہوئے اور خود اُنہوں نے اُن کے جذبات پر اثر ڈالا اور اُنہیں اور شدید تر کر دیا لیکن وہ عوام کی قیادت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک عالم شاعر اور فلسفی تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اہم حصہ لیا تھا لیکن ہندوستان کی اِس قومی تحریک میں ہندوئوں کا غلبہ تھا اور اِس پر اُن کا ہی رنگ چھایا ہوا تھا ، اِس لئے مسلم ذہن میں ایک کشمکش پیدا ہوئی اور بہتوں نے تفریق کا راستہ اختیار کیا جس کی طرف اقبال کے فلسفے اور شاعری نے اُن کی رہنمائی کی تھی ‘‘ ۔
علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل جواہر لال اقبال کی بیماری پر عیادت کیلئے اقبال سے ملاقات کیلئے آئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب میں کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’میرے رخصت ہونے سے ذرا دیر پہلے اُنہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میں اور جناح میں کیا چیز مشترک ہے ؟ وہ (جناح) ایک سیاست دان ہیں اور تم (نہرو) ایک محب وطن ! مجھے اُمید ہے کہ مجھ میں اور جناح میں اب بھی بہت کچھ مشترک ہو گا لیکن محب وطن ہونا اب کوئی قابل تعریف چیز نہیں سمجھی جاتی ... ہاں اقبال کا یہ خیال یقینا درست تھا کہ میں کچھ زیادہ سیاست دان نہیں ہوں‘‘ ۔ جواہر لال کے تجزیہ کے بعد اِس اَمر کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ علامہ اقبال بیماری کے باوجود قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تاریخی خطوط کے ذریعے آخری دم تک مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد میں دامے درمے سخنے شامل رہے۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے دس ماہ قبل 21 جون 1937 میں قائداعظم کے نام جو خط لکھا ، اُس کے مندرجات سے ہی علامہ اقبال کی حصول پاکستان کی تحریک سے دلی وابستگی کی دلیل مل جاتی ہے ۔ اُنہوں نے قائداعظم کو اپنے مکتوب میں لکھا ’’ مسلم صوبہ جات کی علیحدہ فیڈریشن ، واحد ذریعہ ہے ، ہندوستان میں امن و امان کے استحکام کا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ سے بچانے کا ، شمال مغربی اوربنگالی مسلمانوں کا کیوں نہ حقِ استصواب کا مستحق جانا جائے جس طرح ہندوستان کے اندر (ہندوئوں) یا باہر دوسری قوموں کو دئیے جانے کا کہا جاتا ہے\\\" ۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے لاہور میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ آج علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا ہے کیونکہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے وہی کچھ کیا ہے جو وہ چاہتے تھے تو پھر علامہ اقبال کے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کس کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے نکالا جاتا ہے ؟
اندریں حالات نظریہء پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم اور علامہ اقبال کی ہرزہ سرائی کرنیوالے اکابرین سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ بانیان پاکستان کی سیاسی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ا پنی غلطیوں کا احساس کریں اور بانیان پاکستان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کریں۔ مجلس احرار نے قائداعظم کے اصولی موقف کی ہمیشہ ہی مخالفت کی تھی لیکن امیر شریعت سید عطا شاہ بخاری نے پاکستان بننے کے بعد لاہور میں مجلس احرار کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ کر اپنی جماعت کو توڑنے کا اعلان کیا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُنکی غلطی تھی ۔ قائداعظم کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم ایک عہد آفریں شخصیت تھے، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جو پاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا ۔ یقینا قائداعظم کا پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اُنکے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ میں اسٹینلے والپرٹ Stanley Wolpert کے اِن خوبصورت جملوں کیساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہو ں:
\\\" Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Mohammad Ali Jinnah did all three.\\\"