”اٹھا لو پاندان اپنا“

بات آئی جی اسلام آباد کے تقرر کے لئے میرٹ کی ہو رہی تھی۔ وہ بڑی دلیل ڈھونڈ کر لائے۔ فرمانے لگے کیا کسی سے دوستی ہونا اور دوستی نبھانا جرم ہے۔ آپ اس منطق کا بھلا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ یہاں تو عملداری ہی صرف دوستیوں کی ہے اور دوستیاں نبھانے کی روش بھی ایسی کہ کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتی۔ کسی کی جان چلی جائے، کوئی برباد ہو جائے۔ بے شک اداروں کا ڈسپلن ہی کیوں نہ خراب ہوتا رہے اور بے شک ملک کی نیک نامی پر ہی کیوں نہ حرف آ جائے مگر دوستی پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔ اور جناب۔ یہ دوستیاں کیوں نہ نبھائی جائیں، کچھ جیل کی دوستیاں ہیں، کچھ ریل کی دوستیاں ہیں، کچھ لڑکپن کی ”ہم خرما ہم ثواب“ دوستیاں ہیں۔ اور کچھ بے حد و حساب دوستیاں ہیں، کچھ دوستیاں یاروں کی یاری نبھانے کا تقاضہ کرتی ہیں اور کچھ دوستیاں اپنی ماضی کی کمزوریوں، مجبوریوں اور شباب و مستی کی باہمی وارداتوں کو چھپانے کے لئے نبھائی جاتی ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بندہ حکمرانی کے چشمہ فیض پر بیٹھا ہو اور اپنے جگری یاروں اور ان کی آل اولاد کو اس فیض سے محروم رکھے
محتسب کی خیر، اونچا ہے، اسی کے فیض سے
رند کا، ساقی کا، خُم کا، مَے کا، پیمانے کا نام
حضرت بڑے ہی بدخواہ تھے جو آئی جی اسلام آباد کے لئے واجد علی درانی کے تقرر پر سیخ پا ہو رہے تھے۔ ”ارے یہ وہ صاحب ہیں جن کے خلاف شہید بی بی کے برادر خورد میر مرتضٰی بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے قتل کی ایف آئی آر کٹوائی تھی۔ وہ شہید بی بی کے دور حکومت میں اپنے ہی شہر میں، اپنے ہی گھر کے باہر گولیوں سے بھُونے گئے تو ان کے اس بیان کی روشنی میں کہ واجد علی درانی مجھے قتل کرنے کے درپے ہے، درانی صاحب قابو آئے، جیل گئے، اس مقدمہ قتل کے بڑے ملزم بنے اور پھر این آر او کی برکت سے چشمہ فیض سے مستفیض ہوتے ہوئے اس کیس کی پرچھائیں تک سے نجات پا کر سرخرو ہو گئے۔ ہمارے صدرِ محترم بھی تو اس کیس میں اسی طرح سرخرو ہوئے تھے۔ وہ سربراہ مملکت ہو سکتے ہیں تو واجد علی درانی کے آئی جی اسلام آباد بننے پر واویلا کیوں۔ بڑے ہی بدخواہ ہیں یہ حضرت بھی ع ”غالب کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے۔“ آپ دیکھتے نہیں؟ شہید بی بی نے بھی تو اپنی زندگی میں مشرف ڈکٹیٹر کے خلاف اپنے قتل کی ایف آئی آر کٹوائی تھی۔ واجد علی درانی تو ”فرشتوں“ کے لکھے پر ناحق پکڑے گئے تھے۔ مشرف کے لئے تو اس کی نوبت بھی نہیں آنے دی گئی بلکہ ان کی عزت میں اضافہ کر کے، پروٹوکول دے کر اور گارڈ آف آنر پیش کر کے ایوان صدر سے رخصت کیا گیا اور پھر حکومتی مراعاتی چھتری کے نیچے انہیں ملک سے فرار ہونے کا محفوظ راستہ دکھا دیا گیا۔ ”میں بن پتنگ اُڑ جاﺅں، کسی کے ہاتھ نہ آﺅں“ ”ہم خرما، ہم ثواب“ کے شیر و شکر ہیں۔ یہ سہولت بھی نہ ملے تو لعنت ہے ایسی دوستی پر۔
اور جناب دیکھئے تو سہی۔ میر مرتضٰی بھٹو کے قتل کے تفتیشی کو اندھی موت نے آ لیا۔ ٹرائل کورٹ کے جج کو بھی موت لے اُڑی۔ بی بی اقتدار میں تھیں۔ اپنے اس لاڈلے بھائی کے ساتھ پیدا کرائے گئے اختلافات ختم کر کے اسے سندھ کی حکمرانی دینے کا سوچ رہی تھیں کہ اس بھائی کی ناگہانی ابدی جدائی کے بعد اپنا اقتدار بھی کھو بیٹھیں۔ اور پھر سانحہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ان کے اپنے قتل کے اہم گواہ خالد شہنشاہ کا منظر سے ہٹایا جانا کسی ”ہم خرما، ہم ثواب“ کہانی کی ہی تو عکاسی کرتا ہے۔ اسلام آباد کے آئی جی کلیم امام اپنے ماتحت سعود عزیز کو سلطانی گواہ جیسا بیان دینے سے بھلا روک پائے تھے اب واجد علی درانی ہی اس گڑبڑ کا علاج ہو سکتے ہیں۔ یہ بدخواہ تو ایسے ہی اپنے دل کا غبار نکالتے، انٹ شنٹ مارتے رہتے ہیں۔ سینیٹر رضا عابدی کی اس دلیل کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو سکتا کہ واجد علی درانی کو کیا محض اس لئے آئی جی اسلام آباد نہ لگایا جائے کہ وہ سربراہ مملکت کے دوست ہیں۔ ارے یہ کیا بات ہوئی۔ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر دوستی کا حق ادا کریں اور یہ اس حق کا بدلہ چکانے کی پوزیشن میں آ کر بھی اپنے منصب کے تقاضوں کی ہچکچاہٹ میں پڑے رہیں؟ نہیں بندہ نواز ایسا نہیں ہونے کا، آپ اپنی بدخواہیوں کو سمیٹیں اور رفوچکر ہوں۔ یہ عہد تو دوستیاں نبھانے کا عہد ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں۔ میٹرک پاس جیل کے ساتھی کیسے چیئرمین او جی ڈی سی والے انعام و اکرام سے نوازے گئے تھے۔ وہ تو ان کی قسمت خراب تھی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشکیل نو نہیں ہو پائی تھی ورنہ تو ان کے تقرر کے خلاف دائر کیس بھی ان کے تقرر پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا اور وہ چیئرمین اوگرا کی طرح سرخرو ٹھہرتے۔ مرحوم حبیب جالب بھی کتنے ”بے موقع“ یاد آنے لگتے ہیں
چنگیز خاں شہید، ہلاکو شہید ہے
اس عہد میں جو آیا ہے ڈاکو، شہید ہے
اس عہد میں بھی ہم خرما ہم ثواب سے پرہیز؟ توبہ توبہ۔ خدا خدا کیجئے۔ آپ دیکھتے نہیں۔ چشمہ فیض اوپر سے نیچے تک جاری ہے اور نیچے تو بہار لگی ہوئی ہے گریڈ 21 کی اسامیوں پر گریڈ 19، اور گریڈ 18 والے دوستوں کو نواز کر دلیل دی جاتی ہے کہ آپ نے گریڈ دیکھنا ہے یا کام؟ سارے قاعدے قانون، سروس رولز جائیں بھاڑ میں۔ گریڈ 21 والے سارے کام چور ہوں تو آخر سرکار نے کام بھی تو لینا ہے۔ ابھی تو ڈاکٹر بابر اعوان اسلام آباد کی اپنی صوبائی اسمبلی کی ضرورت بھی محسوس کر رہے ہیں۔ آپ چند دوستیوں کے صلے پر ہی پریشان ہو بیٹھے ہیں۔ ہم تو ساری کائنات نچھاور کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ آپ چیختے چلاتے رہیں۔ آپ کو تو نئے پارلیمنٹ لاجز کی تعمیر کے لئے مختص تین ارب روپے کی حقیر رقم بھی کھٹک رہی ہے۔ ہم آپ کی باتوں پر کان دھرتے رہے تو پھر نبھ گئی دوستی۔ حضور، اٹھا لو پان دان اپنا۔ اور رفوچکر ہو جاﺅ۔ بڑے آئے قاعدے قانون کی بات کرنے اور اصولوں کا درس دینے والے
اب اصولوں کی کتابیں طاق پر رکھ دو فراز
نفرتوں کے یہ صحیفے عمر بھر دیکھے گا کون

ای پیپر دی نیشن