صوبہ ’جنوبی پنجاب اور دارالحکومت بہاولپور کی تجویز

راﺅ شمیم اصغر
پنجاب کے نئے گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے اپنے آبائی ضلع رحیم یار خان کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے دورہ کے موقع پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بہاولپور صوبہ کے قیام کے لئے بل پارلیمنٹ میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس جلسہ عام سے سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنوانے کی باتیں کرتے رہے ہیں اب بہاولپور صوبہ کی بحالی کے حامیوں کے ساتھ جلسے کر رہے ہیں۔ اس جلسے کے انعقاد کیلئے گورنر پنجاب نے اپنی طرف سے بڑی تیاری کی تھی۔ انہوں نے نواب آف بہاولپور کو بھی دعوت دی تھی لیکن وہ نہیں آئے۔ بہاولپور صوبے کی بحالی کے سب سے پہلے مدعی محمد علی درانی کو دعوت ہی نہ دی گئی جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سارا کریڈٹ وہ اکیلے ہی سمیٹنے کے چکر میں تھے۔ نواب آف بہاولپور نے بڑی سوچ بچار اور طویل مشاورت کے بعد جلسے میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اور ان کے رفقاءبھانپ رہے تھے کہ جلسہ عام کے مقاصد کیا ہیں۔ سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بڑی گول مول باتیں کیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کسی ایک مرحلے پر بھی یہ نہیں کہا کہ بہاولپور صوبہ بحال کریں گے یا کر دیا جائے بلکہ وہ یہ کہتے رہے کہ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کو اہم عہدے دئیے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان‘ گورنر‘ سپیکر اس خطے سے لئے جاتے رہے ہیں۔ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ان کی جانب سے یہ وعدہ سامنے آیا کہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ بھی پیپلز پارٹی ہی کرے گی۔ الیکشن قریب ہیں تو انہیں یہ بھی یاد آیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے بنایا گیا کمشن جلد اپنی رائے دے دے گا اور صوبے کی مخالفت کرنے والے بے نقاب ہوں گے۔ انہوں نے عمران خان کا نام لئے بغیر کہا کہ سیاسی نابالغ صدر کی موجودگی میں الیکشن میں حصہ نہ لینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کی آمریت میں ریفرنڈم میں آمر کو ووٹ دیا لیکن اب الیکشن سے بھاگنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کو اپنے خطاب کے دوران یاد آ گیا کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ حکومت کے دور میں کھربوں روپے کے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کا احساس ہے۔ تعلیم‘ صحت اور روزگار کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مخدوم احمد محمود اپنی تمام تر کوششوں اور تیاریوں کے باوجود بہاولپور ڈویژن کی سیاسی قیادت کو اس جلسہ عام کے پلیٹ فارم پر جمع نہ کر سکے تاہم ان کے تین صاحبزادوں قومی اسمبلی کے رکن مخدوم مصطفیٰ محمود‘ رکن پنجاب اسمبلی مخدوم مرتضیٰ محمود اور مخدوم علی مرتضیٰ محمود نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی ضلع رحیم یار خان میں فنکشنل مسلم لیگ کا اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور اپنے ایک کزن پیر پگارہ کی فنکشنل مسلم لیگ کے ساتھ تعلقات بھی ختم ہو گئے۔ فنکشنل مسلم لیگ ملک غلام مصطفی کھر کو پنجاب کا پارٹی صدر بنا کر پہلے ہی ان سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔ گورنر مخدوم احمد محمود جتنے مرضی دعوے کر لیں حقائق یہ ہیں کہ گورنری کے بدلے میں اب تک وہ صرف ایک ایم این اے کی نشست اور اس کے ساتھ دو پنجاب اسمبلی کی نشستیں پیپلز پارٹی کی گود میں ڈال سکے ہیں۔ ان کی جانب سے بہاولپور صوبہ کی بحالی کی بجائے نئے صوبہ کی بات کو بہاولپور میں بڑی حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا کر بہاولپور کو صوبائی دارالحکومت بنانے کا سوچا ہے تو یہ بات خود بہاولپور کے عوام کو بھی قبول نہیں۔ نہ ہی ملتان والے اسے مانتے ہیں۔ ملتان میں سرائیکی صوبہ کا مطالبہ کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ ملتان‘ ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور ڈویژنوں کے علاوہ پنجاب کے بعض دیگر اضلاع پر مشتمل صوبہ بنایا جائے۔ بہاولپور صوبہ کی بحالی کے حامیوں کا مطالبہ ہے کہ بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کی جائے۔ اس طرح جنوبی پنجاب صوبہ کی تشکیل اور بہاولپور صوبائی دارالحکومت کے نام پر ایک نئی بحث اور نئی محاذ آرائی کا آغاز ہونے والا ہے اور اسی محاذ آرائی کے دوران ہی عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے اس جلسہ عام کے بعد ایک انتہائی دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں جس کمشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا ، یہ اعلانات خود اُس قرارداد کی نفی کرتے ہیں۔ مخدوم احمد محمود نے اپنے کزن پیر پگارہ کے ساتھ سیاسی تعلق ختم کر کے اپنے دوسرے کزن سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ سیاسی تعلق کو مستحکم کیا ہے اور سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کے رہائشی سردار لطیف خان کھوسہ کو گورنر ہا¶س سے نکلوا کر اپنے کزن کو وہاں پہنچا دیا ہے۔ اب ان کے لئے پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا اور پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلانا یقیناً آسان ہو جائے گا۔ وہ گورنر ہا¶س میں بیٹھ کر جوڑ توڑ کر سکیں گے لیکن مخدوم احمد محمود نے گورنری کے بدلے میں کیا کھویا کیا پایا اس کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہو گا لیکن قبل ازیں وہ بہاولپور ڈویژن کی 13 قومی و صوبائی نشستوں کے دعویدار ہوا کرتے تھے۔ 2008ءکے انتخابات میں یہ دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ اب بھی گورنر کی پیشکش سے قبل 13 نہ سہی اس میں سے بیشتر کے فیصلے اپنی مرضی سے کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کرتے رہے ہیں جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں کو بچانے کے لئے فکرمند ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...