احمد کمال نظامی
انتخابات کی آمد کا اس قدر شور ہے کہ اس شور نے کچھ خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ عوام کی غالب اکثریت ماضی کے حکمرانوں کے ان چہروں سے اچھی طرح آشنا ہو چکی ہے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنا نے نقشہ میں اپنی پسند کی لکیریں بھی ابھار دی ہیں۔ فیصل آباد کو قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد کے حوالے سے سیاسی طور پر لاہور کے بعد بڑا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے درودیوار ابھی سے متوقع امیدواروں کے بینرز اور فلیکس سے بھرے پڑے ہیں اور بعض امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ ان امیدواروں میں پنجاب کی اور وفاق کی حکمران پارٹیوں کے وہ امیدوار بھی شامل ہیں جو رکنیت کو اپنی اجارہ داری قرار دیتے ہیں اگر شیڈول کے مطابق اور تحریک منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کے حوالہ سے بات کریں تو خیال غالب یہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری فروری کے آخری عشرہ میں کسی وقت بھی قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے لیکن اسمبلی کی تحلیل سے قبل آئین کے تحت نگران وزیراعظم کا نام سامنے لانا ناگزیر ہے۔ ممکن ہے کہ جو چار نام سامنے آئیں گے بالآخر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب چیف الیکشن کمیشنر فخر الدین جی ابرہیم کو ہی آئینی طور پر کرنا پڑے گا۔دونوں بڑی پارٹیاں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ ووٹ بینک ان کی مٹھی میں ہے اور ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ انتخابات کے قریب تر ہونے کے باوجود عوام میں اپنے امیدواروں کو متعارف نہیں کرا سکیں اور یہی حالت سونامی کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کی ہے۔ حالانکہ مجوزہ انتخابات تحریک انصاف کی زندگی میں پہلے انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف نے اپنے وجود کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کرنا ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور وطن عزیز میں انارکی کی ہوا سلگتی نظر آ رہی ہے کہیں دھرنے ہو رہے ہیں کہیں لاشیں گر رہی ہیں کہیں آپریشن کی نوید سنائی دی جا رہی ہے۔ کہتے ہیں بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت تاریخ کی پہلی پانچ سال پوری کرنے والی حکومت ہے مگر افسوس صد افسوس کہ اس جمہوریت نے اٹھارہ کروڑ عوام کو تاریک ترین اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہ کیسی جمہوریت جو سوائے عوام کے سب کیلئے سوچتی ہے اور حکومتی اتحادی اس کو بلیک میل کر کے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ خودکشیوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ جمہوریت تب ہی اچھی ہوتی ہے جب اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں لیکن جہاں تو ثمرات حکمرانوں کی لغت میں ہی نہیں۔ ہمارے ملک میں عوامی نمائندے عوام کی طاقت سے برسراقتدار تو آ گئے مگر انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دیں۔ ان حقائق کے باوجود آئندہ پانچ سال کے لئے قیادت کا دعویٰ مرحوم آغا شورش کاشمیری کے بقول
سیاسی مچھندر خدا ہو گئے ہیں
لٹیرے تھے اب رہنما ہو گئے ہیں
اب ایک نئی صورت حال جو سامنے آئی ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنا کے بطن سے جس معاہدہ نے جنم لیا ہے اور اس معاہدہ میں آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو روح معاہدہ قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ دفعات تو پہلے بھی آئین میں موجود تھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ ماورائے آئین معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ تسلیم کیا جائے گا۔ طاہرالقادری کہتے ہیں کہ معاہدہ حقیقی جمہوریت لانے کی دستاویز ہے۔ صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ معاہدہ جمہوریت کی فتح ہے اور جمہوریت کا بستر گول کرنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ حکمران پارٹی کے ترجمان قمرالزمان کائرہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کی ایک ایک شق پر عمل درآمد ہو گا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ کوئی غیرجمہوری قوت بروقت انتخابات کو سبوتاژ نہیں کر سکتی اور مک مکا کی صورت میں سونامی آنے کی بات بھی کرتے یعنی لانگ مارچ اور دھرنا کی دھمکی دیتے ہیں لیکن مجوزہ انتخابات میں ماضی کے مقابلہ میں جب انتخابی شیڈول کا اعلان ہو گا اور کاغذات نامزدگی داخل کئے جائیں گے تو اس وقت ایئرمارشل اصغر خاں کیس کے حوالہ سے جس پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ صادر کر چکی ہے تو حکمران اتحاد اور تحریک منہاج القرآن کے درمیان ہونے والا معاہدہ وہ جادو ثابت ہو گا جو سر چڑھ کر ہر شخص کو بولتا دکھائی دے گا اور آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو سامنے رکھتے ہوئے اور اصغرخاں کیس کی روشنی میں جب میاں نوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف اور دیگر پر اعتراضات ہوں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ یہ صادق اور امین نہیں اور دفعہ 62 اور 63 کی دفعات پر پورا نہیں اترتے تو اس وقت اصل سونامی آئے گا اور ایک ایسا زلزلہ آئے گا کہ بہت سے بت اسی زلزلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہو جائیں گے۔ ذرا غور کیجئے کہ 62 اور 63 کی زد میں آ کر کسی جماعت کی مرکزی قیادت ہی میدان انتخاب سے باہر ہوجائے گی تو انتخابات ہوں گے؟ اور جو بحران پیدا ہو گا اس پر کیسے قابو پایا جائے گا جبکہ نگران حکومت وجود میں آ چکی ہو گی اور صدر آصف علی زرداری جو اس وقت سب پر بھاری دکھائی دیتے ہیں وہ محض صدرمملکت ہی ہوں گے اور اصل چیف ایگزیکٹو تو نگران وزیراعظم ہوں گے اور سونامی 62، 63 کی شکل میں آ چکا ہو گا۔