خاتم النبیین حضور بذاتِ خود بھی عالمِ انسانیت کے عظیم ترین سیاست دان تھے، پھر آپ کی اطاعت میں خلفائے راشدین نے جس شاندار طریقے سے سیاست کی وہ آج بھی نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری عالم انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے اور بانی¿ پاکستان حضرت محمد علی جناحؒ نے بھی خاتم النبیین کی پیروی میں ہی جھوٹ، منافقت، ”قول و فعل میں تضاد“ سے پاک سیاست کی بدولت ہی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جداگانہ ریاست پاکستان کے نام پر حاصل کی۔ ادھر ہمارے موجودہ سیاست دان چاہے وہ کوئی عالم دین ہی کیوں نہ ہو ان کا مقصد صرف اور صرف اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے چاہے انہیں اس کے لئے مذہب کا سہارا لینا پڑے یا قسمیں کھانی پڑیں۔مبلغ اسلام ڈاکٹرطاہر القادری نے ”اقتدار“ کے ایوانوں تک رسائی کے لئے ” اقتدار مارچ“ کے ذریعے جو راستہ اپنایا اور پھر اپنے مقاصد کے لئے جس انداز میں مذہب کو استعمال کیا اس کی مثال شاید پوری پاکستانی سیاست کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جب ”مبلغ اسلام“ لاہور سے ”مارچ“ لے کر اسلام آباد پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے پہنچے تو حکومت کو پہلی ڈیڈ لائن اگلے دن 11:00 بجے تک دی کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں اور ساتھ ہی 7 نکاتی ایجنڈا پیش کر ڈالا مگر جب کئی بار ڈیڈ لائن دینے کے بعد بھی حکومت تماشائی بنی رہی۔ پانچ دن ”مبلغ اسلام“ کے ”عقیدت مند“ جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی شامل تھے بارش اور شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔ ان کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا تو قادری صاحب نے 17 جنوری بعد دوپہر 2 بجے صرف ڈیڑھ گھنٹہ مہلت کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ حکومتی اراکین جو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے آئے ، مذاکرات ہوئے، گلے ملے اور قادری صاحب نے اپنے کنٹینر میں قمر زمان کائرہ کو کہا کہ پہلے تو آپ ہم پر تیر برساتے رہے ہیں اب ہم بھی آپ کے ساتھ کمان لے کے بیٹھیں گے۔ اگر اس ”ڈرامائی مارچ“ کا مقصد صرف حکومت میں شامل ہونا ہی تھا یا حکومت کا اتحادی بننا تھا تو اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت تھی؟انہوںنے با ربارخود کو ”حسینی“ اور حکمرانوں کو ”یزیدی“ کہا۔ حضرت حسینؓ نانا کی شریعت بچانے کیلئے نکلے تھے اور اپنے اہلخانہ کی جانوں کے نذرانے بارگاہ رب العزت میں پیش کر کے اپنے عظیم مقصد میں سرخرو ہوئے۔ قادری صاحب جن کو یزیدی کہتے تھے انہی کے ساتھ مذاکرات کئے اور اقتدار کی راہیں ہموار کر لیں۔ حاضرین کو قرآن پاک کے واسطے دیئے ان کی ماﺅں کے دودھ کے واسطے دیئے، مارچ کو ”حسینی لشکر“ کا نام دیا!! کیوں؟ صرف اقتدار کے حصول کے لئے؟ ساری عمر اسلام کی تبلیغ کرنے والے جناب قادری صاحب نے خود یہی کچھ سیکھا ہے؟۔ کیا یہ سب کچھ قادری صاحب کی جگ ہنسائی کے لئے کافی نہیں ہے؟ اقتدار کے حصول کےلئے مذہب کا استعمال.... قادری صاحب کے اس ”احسن“ فعل سے نہ صرف پاکستان کے شہریوں بلکہ مسلمانان عالم کے دل مجروح ہوئے۔
خطاب کے دوران جب حسب روایت سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس کے ملزمان بشمول وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم دیا تو قادری صاحب نے اپنے مجمع کو مبارکباد دی اور کہا کہ ہمارا آدھا کام ہو گیا ہے اور عدلیہ کے اس فیصلے کا ”کریڈٹ“ بھی قادری صاحب نے لینے کی بھرپور کوشش کی ۔ آئین کی ”پاسداری“ کے دعویدار قادری صاحب نے مذاکرات کے بعد جو تحریر ثبوت کے طور پر حاصل کی اس پر دستخط بھی ” اسی ملزم وزیراعظم“ کے ثبت ہیں۔ اب قادری صاحب کو دیکھنا ہوگا کہ آئین کی شق 63, 62 کا جو رونا وہ رو رہے ہیں اس پر وہ خود کس حد تک پورا اترتے ہیں؟ یہ بات تو طے ہے کہ اس ”ڈرامائی مارچ“ کا مقصد صرف اپنی جماعت کی الیکشن میں حصہ لینے کی راہیں ہموار کرنا تھا خود تو قادری صاحب حصہ نہیں لے سکیں گے۔ دہری شہریت بھی آڑے ہے جس کو وہ کسی بھی قیمت نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہاں اقتدار شاید ایک بارمل بھی جائے مگر مغرب سے ڈالر ہمیشہ کے لئے ملیں گے۔ یہی وجہ ہے مارچ کے خطاب میں قادری صاحب نے صرف پاکستانی سیاست پر نہ صرف تنقید کی بلکہ کیچڑ اچھالا اور مغرب کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ نیٹو کے ڈرون حملوں میں تقریباً تین ہزار پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس نے یہاں لاہور میں جو بدمعاشی کی، ایبٹ آباد میں امریکہ نے راتوں رات جو دہشت گردی کی، اس سمیت کسی بھی مسئلے پرشیخ الاسلام نے دو حرف کہنا گوارا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں کو قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے دھڑک شہید کر رہا ہے۔
”شیخ الاسلام“ کی مجال ہے کہ اس کے خلاف بھی ایک جملہ کہا ہو بلکہ قادری صاحب کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کو اپنے حق کے لئے لڑنا جہاد نہیں ہے۔ دوسری طرف اپنے لانگ مارچ کو وہ جہاد قرار دیتے ہیں جس کا راستہ قادری صاحب کو ”اقتدار“ تک لے جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ وطن ہمارے اسلاف نے صرف اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا عملی نفاذ ہوگا اور مسلمان آزادانہ طور پر اسلام کے سنہری اصولوں کی روشنی میں زندگی بسر کر سکیں گے اور تمام اقلیتوںکو تحفظ حاصل ہوگا۔ ہمارے سیاست دانوں نے سیاست کو عبادت کی بجائے دولت اور اقتدار کا حصول سمجھ لیا ہے جس کے لئے وہ قرآن پاک کی قسمیں کھانا اور اسلامی شعائر کی توہین بھی کرنے سے نہیں چوکتے۔ کچھ عرصہ قبل سندھ میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے قرآن پاک کو سر پر اٹھا کر ایم کیو ایم کے خلاف باتیں کیں پھر اچانک وہ ”خاموش“ کر ادیئے گئے اور اب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جو عالم دین ہیں، قرآن پاک، کربلا والوں کے واسطے یعنی مذہب کی آڑ میں پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلنے کی جسارت کی ہے ۔ڈاکٹر قادری سے معذرت کے ساتھ آئین کی وہ شق بھی عوام کو پڑھا دیں جس میں لکھا ہے کہ اب حکومتی اجلاس منہاج القرآن کے ادارے میں ہوگا۔ افسوس کے ساتھ قادری صاحب نے تو اخلاقیات اور آئین شکنی کی خود ہی تمام حدیں عبور کر دی ہیں اور دوسروں کو کس منہ سے آئین پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں ع
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور