شریف پنجاب اور امریکی اہداف

شریف پنجاب امریکی اہداف کے خلاف آخری سیاسی چٹان ہے کیونکہ پاکستانی سیاست میں پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پنجاب میں تبدیلی پاکستان میں ہمہ رنگ تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔
لہٰذا امریکی کا اولین ہدف پنجاب میں تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی زرداری کے ذریعے جھانسے سے لائی جائے یا ڈاکٹر طاہرالقادری، الطاف حسین اور عمران خان کے تبدیلی اور انقلاب کے نعرے سے لائی جائے۔ پنجاب کو غیر شریف کرنے یعنی شریف برادران سے ہتھیانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز حیلہ، حربہ اور جھانسہ کام میں لایا جا رہا ہے۔ امریکہ کا پاکستان کے اندر آپریشنل نیٹ ورک مکمل ہے۔ یہ نیٹ ورک اپنے مقامی اور بین الاقوامی اتحادی احباب اور احزاب کی مدد سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، قبائلی اور گلگت، بلتستان میں من مانی منفی سرگرمیاں کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کا دوسرا ہدف افغانستان سے فوجی انخلا 2014ءسے قبل کراچی اور گوادر تک تجارتی راہداری کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔ خوش قسمتی سے پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جو بینظیر کے دور اول سے بایں دور سیاسی مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ گو پنجاب کی قیادت آئی جے آئی سے لاتعلقی بھی اختیار کر لے مگر شریف برادران کے ہوتے ہوئے امریکہ کے خلاف مزاحمتی پالیسی سے بے تعلق نہیں رہ سکتی۔ آج بھی امریکہ اپنی تمام کامیابیوں کے باوجود پنجاب میں دیگر صوبوں کے برعکس بے بس اور بے سہارا ہے اور یہی سبب ہے کہ پنجاب میں دیگر صوبوں کی نسبت امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ یہ شریف پنجاب کا کمال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو 46دن جیل میں رکھا۔ روات اور سہالہ پولیس ٹریننگ سنٹر (پنڈی) کو بلیک واٹر کے پیشہ ور قاتلوں سے خالی کرایا۔ نواز شریف نے امریکی دھمکی، دباﺅ اور لالچ کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کئے۔ امریکہ کی پہلی بڑی کامیابی جونیجو کا جنیوا معاہدہ ہے جس کے تحت امریکہ و عالمی اتحادی برادری کو پاک افغان امور میں عمل دخل کا جواز مل گیا۔ امریکہ نے دریں تناظر نیو ورلڈ پالیسی بنائی جس کی خشت اول بہاولپور فضائی سانحہ (17اگست 1988) ہے جس کے بعد امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے روزنامہ دی نیشن (دسمبر 1988) کو طویل انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کے آئینی اور پارلیمانی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بینظیر کو آﺅٹ آف دی وے وزیراعظم نامزد کرایا ہے اور یہ ہماری مطلوبہ منصوبہ بندی تک وزیراعظم رہے گی۔ امریکہ کی مذکورہ جارحانہ مداخلت کے ردعمل میں آئی جے آئی بنی اور پنجاب میں شریف برادران نے بخوبی مزاحمتی کردار ادا کیا۔ موجودہ صورتحال بھی 1988ءکے سیاسی و انتظامی منظر سے ملتی جلتی ہے جس میں شریف پنجاب پی پی پی کی وفاقی حکومت کا حلیف نہیں اور اس وقت امریکہ کی ساری منصوبہ بندی شریف پنجاب کے باعث تاخیر اور التوا کا شکار ہے۔ لہٰذا حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کی ساری کوشش پنجاب کو شریف برادران بلکہ فیملی سے ہتھیانے اور زرداری کی صدارت میں حملہ آور امریکہ کی ہمنوا وفاقی و صوبائی حکومتیں بنانے کی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کی مستقبل میں طاقت کو توڑنے کے لئے سرائیکی اور دیگر لسانی اور نسلی صوبہ سازی کرنا ہے۔
امریکہ کے لئے پنجاب شریف فیملی سے ہتھیانا آسان نہیں۔ امریکی پالیسی تاحال دھمکی، دباﺅ لالچ اور جھانسے کی ہے۔ پاکستان میں قوت کا محور اور مرکز فوج اور پنجاب ہے جبکہ جمہوریت کی جان شریف برادران ہیں جن کی پنجاب میں مضبوط اور مقبول حکومت اور ان کی حیات اور کردار افغان مجاہدین کے جہد مسلسل کی مانند ہے جو پاک فوج اور سرکار کی دوستی اور دشمنی کے باوجود امریکہ کے لئے مزاحمتی تلوار ہیں۔ علاوہ ازیں شریف پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان کے علاوہ ترقیاتی اور عوامی فلاحی منصوبے حیران کن حد تک کامیاب رہے ہیں پنجاب میں تاریخی ریپڈ بس سروس کا منصوبہ چند ماہ میں مکمل کرنا معجزے سے کم نہیں۔ پنجاب میں ڈینگی کا خاتمہ ساری دنیا کے لئے ایک مثالی کامیابی ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی اور ازسرنو آبادی کاری شریف پنجاب کا خاصہ ہے۔ دو روپے روٹی پروجیکٹ غریبوں کا آسرا تھا۔ شہروں کی صفائی ستھرائی کے لئے سالڈ ویسٹ پروگرام کامیابی سے چل رہے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے صحت مند تعلیمی تفریحی اور جسمانی سرگرمیوں (سپورٹس وغیرہ) کے منصوبے اپنی مثال آپ ہیں۔ شہباز شریف نے اعلیٰ معیاری سڑکوں اور پلوں کا اتنا وسیع جال پھیلایا جس نے شہباز کو پنجاب کا شیر شاہ سوری بنا دیا ہے۔ پنجاب میں آئی ٹی یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز کا قیام عظیم عوامی فلاحی منصوبے ہیں۔ یہ سب اور مزید غیرمذکورہ ترقیاتی و فلاحی منصوبے شہباز شریف کی انتھک محنت دیانت اور لگن کا نتیجہ ہیں۔ نیز شریف برادران مالی کرپشن سے مبرا ہیں۔
 شریف برادران کی مذکورہ خدمات نے انہیں نہ صرف پنجاب بلکہ سارے پاکستان کے لئے مثالی جمہوری قائد بنا دیا ہے۔ ان کی رواداری پر مبنی جمہوری پالیسی نے پہلی بار جمہوری حکومت کو اپنی انتخابی مدت (باوجود ہزار نقائص) پوری کرنے کا موقع دیا۔ ان کا صبر، شکر اور جدوجہد مثالی ہے اور یہی چیز امریکہ و زرداری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ امریکہ و زرداری کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اگلے انتخابی نتائج کے بعد پنجاب میں شریف برادران مضبوط تر ہو گئے اور زیادہ نشستیں حاصل کر لیتے ہیں تو امریکہ و اتحادی ممالک کے لئے اہداف کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ لہٰذا امریکہ کو سیاست میں دوسرے زرداری اور فوج میں دوسرے پرویز مشرف کی تلاش ہے جو قانون کے مطابق ستمبر اور دسمبر سے پہلے ممکن نہیں۔ لہٰذا امریکہ و اتحادی ممالک نے زرداری کے ساتھ سازباز کر کے درج ذیل حکمت عملی اپنائی ہے۔ پنجاب میں شریف برادران کا ووٹ بینک متاثر کرنے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری، الطاف حسین اور عمران خان جیسی امپورٹڈ قیادت اور ان کے نام نہاد عوامی اجتماعات کا بندوبست کیا۔ امریکہ کی ناکامی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اور الطاف کے ذریعے فوجی انقلاب کے نام پر دوسرے پرویز مشرف کو دعوت دے رہے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت یا آمریت سے زیادہ غدار ہمنوا درکار ہیں۔ جس کے لئے وہ سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اگر شریف برادران کو بامر مجبوری پنجاب چھوڑنا پڑے تو وہ حمزہ او مریم سے مدد لیں۔ بجائے اس کے کہ وہ دوسرا منظور وٹو یا چودھری برادران شیخ رشید اور مشاہد حسین سید پیدا کر لیں۔ پاکستان کی تقدیر پنجاب میں بن رہی ہے۔ لہٰذا بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن