دھماکے کے اندر دھمکی۔ دھرنا اور دھوکہ


مستونگ بس کے تباہ شدہ ملبے سے جاں بحق ہونے والی کسی بچی کی ایک گڑیا ملی ہے۔ وہ حکمرانوں کی بیٹی یا بیٹی کی بیٹی کو دے دی جائے۔ تاکہ وہ اس سے کھیلے۔ اُسے ہنستا کھیلتا دیکھ کر کچھ یاد نہیں رہے گا۔ شیخ رشید نے کہا کہ اپنا بچہ روئے تو دل میں درد ہوتا ہے دوسروں کے بچے روئیں تو سر میں درد ہوتا ہے۔ مگر وہ بے جان گڑیا بھی اپنی ننھی سہیلی کی لاش سے چمٹ کر دھرنا دینے والوں کے پاس سے اٹھ کر نہیں آئے گی۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بھی دھرنے دینے والوں کے درمیان بیٹھے نظر آئے۔ خدا کی قسم وہ اچھے لگ رہے تھے۔ بلوچستان حکومت میں شامل تمام جماعتوں کا ایک نمائندہ وفد بھی اُن کے ساتھ تھا۔ سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کو توفیق نہ ہوئی تھی کہ وہ دو بار پہلے اسی طرح مرنے والوں کے ساتھ دھرنا دینے والوں کے پاس نہ آئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور اسلم رئیسانی میں بڑا فرق ہے۔ یہ فرق ایک بلوچ سردار اور عام بلوچ وزیراعلیٰ میں بھی ہے۔ ہم مطمئن ہوئے تھے جب نوازشریف نے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ نوازشریف نے پھر ایسا بندہ لوگوں کو نہ دیا جو بظاہر ہی اچھا ہو۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے مایوس کیا۔ مایوس تو لوگوں کو نوازشریف نے بھی بہت کیا ہے۔ بہت امیدیں لوگوں نے لگائی تھیں۔ الیکشن مہم میں انہوں نے کیا کیا کہا تھا۔ زبردست تقریریں کیں۔ پھر ثابت ہوا ہے کہ تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی۔
اگر ڈاکٹر عبدالمالک دھرنے میں بیٹھے رہتے۔ اٹھ کر نہ آ جاتے تو ہم انہیں سلام کرتے۔ ایک نئی تاریخ رقم ہوتی۔ یہ بہت بڑی معرکہ آرائی ہوتی۔ دہشت گردی کا عذاب تو اس طرح ختم نہ ہو گا مگر کچھ تو ہوتا۔ پریشان لوگ حیران ہو جاتے۔ اب کچھ ہونا چاہئے ورنہ اس ملک میں جو کچھ ہونے والا ہے۔ وہ کسی قیامت سے کم نہیں ہو گا۔ قیامت تو آئی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کو ہم شکست دے دیں تو بھی اس دوران قیامت تو آئے گی۔ ایک مضحکہ خیز بات میرے ذہن میں آئی ہے۔ میرے خیال میں قیمت کی جمع قیامت ہے اور وہ مہنگائی بن کے آئی ہوئی ہے۔ مجھے منیر نیازی بہت یاد آتا ہے؎
یہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں ریاضتیں کئی سال کی
وہ کون سی امانتیں ہیں جن کے لئے ہم نے خیانت کی۔ حکمرانوں افسروں جرنیلوں اور سیاستدانوں نے خیانت کی۔ سب سے بڑی امانت تو یہ ملک پاکستان ہے۔ ہم نے قائداعظم سے وفا نہ کی۔ یہ بھی خیانت ہے۔ کرپشن لوٹ مار لاقانونیت موروثی سیاست خاندانی حکومت۔ یہ سب خیانت ہے اور قیامت ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ جب پہلی بار سانحہ کیا گیا۔ لاشوں کا انبار لگا دیا گیا۔ خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ تب کچھ کر دیا گیا ہوتا تو؟  تب حکمران اسلام آباد سے کوئٹہ چلے آتے۔ معاہدہ کس کے درمیان ہوا۔ ہزارہ کمیونٹی کی طرف سے بھی ’’حکمران‘‘ تھے۔ معاہدہ ہوا فیصلہ نہ ہوا۔ وہ جو اپنے پیاروں کے ساتھ دفن ہونے کا ارادہ لے کے بیٹھے تھے۔ ایک جھوٹا  وعدہ لے کے اپنے اپنے ماتم کدوں (گھروں) کی طرف چلے گئے۔ وزیر تھے مگر اُن میں سے کسی کا نام مجھے یاد نہیں۔ حکمران پریشان تھے۔ اپنے لئے اپنے اقتدار کے لئے۔ مرنے والوں کے رشتہ داروں کے لئے کوئی پریشان نہ تھا۔ تدفین میں کوئی وزیر شذیر نہ تھا۔ جنازہ بھی کسی نے نہ پڑھا۔ سب خوش خوش واپس ہو گئے۔ آہیں سسکیاں آنسو فریادیں کسی پر اثر نہیں کرتیں۔ نہ ظالموں پر نہ حاکموں پر۔ ظالم اور حاکم ہم قافیہ ہی نہیں ہمزاد بھی ہیں اور ہمراز بھی۔ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے۔ وہ ظالم کر رہے ہیں یا حکم کر رہے ہیں۔ کرتے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد ذرا دیر بعد ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ یہی کچھ پھر ہوا۔ اور قتل ہونے والوں کے روتے پیٹتے رشتہ داروں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلے کیا تھا۔ اب کے تو بہت واویلا ہوا۔ حکمران پہلے سے زیادہ پریشان ہوئے۔ ’’وزیراعظم‘‘ پرویز اشرف خود آ گئے۔ وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ بھی تھے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے بھیجا ہو گا۔ ’’صدر‘‘ زرداری اہل تشیع میں سے ہیں۔ اس موقع پر الطاف بھائی نے قائداعظم کے لئے بھی یہی فتویٰ دیا تھا۔ سیاستدان کا فتویٰ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ دونوں متاثرین میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو رہا تھا۔ امین شہیدی شہدا کے وارثوں کے وارث بنے ہوئے تھے۔ مرنے والوں کو زیادہ دیر قبر سے جدا رکھنا اچھا نہیں ہوتا۔ ممکن بھی نہیں ہوتا۔ امین شہیدی نے ٹھیک کیا تھا۔ مگر حکمرانوں نے ٹھیک نہ کیا۔ پھر کوئی معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے میں بھی پہلے معاہدے والے الفاظ تھے۔
میں نے دوسرا کالم لکھا تھا۔ میرے خیال میں یہ معاہدہ مرنے والوں سے دھوکہ تھا۔ مرنے والوں کے لئے دھرنا دینے والوں کے ساتھ دھوکہ تھا۔ مجھے امین شہیدی کے لئے رنجش سی ہوئی۔ پھر وہ میرے گھر آئے۔ اُن کے ساتھ میرے دوست شہزاد ذوالقرنین بھی تھے۔ امین شہیدی کے ساتھ معاہدے میں سب لوگ شامل تھے مگر حکمران مظلوموں اور ظالموں کے درمیان کوئی تفریق کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ دھرنا دینے والوں کے ساتھ دھوکہ بھی دہشت گردی ہے۔ دھماکے کے اندر دھمکی پر غور کرنا کس کا کام ہے؟
اب پھر شہیدی صاحب خود دھرنے میں شریک ہیں فیض آباد راولپنڈی میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ کراچی اور کئی شہروں میں دھرنے دئیے جا رہے ہیں۔ لاہور میں دھرنا گورنر ہائوس کے سامنے ہے۔ دھرنا وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے نہیں ہوتا؟ گورنر ہائوس لاہور کے سامنے دھرنے کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہو گئی۔ میں بھی پھنس گیا۔ میں محبوب اور معزز مہمانوں سے ملنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ گاڑیوں کے اژدھام میں لوگ گاڑیوں میں مضطرب بیٹھے تھے جیسے وہ بھی دھرنے کا حصہ ہوں۔ عورتیں بچے بوڑھے اور جوان بیٹھے ہیں جیسے مٹی نے انہیں پکڑ رکھا ہے۔ وہ رات بھر بیٹھے رہے۔ جنون اور عشق کیا کیا نہیں کرا لیتا۔ ہمارا واسطہ بے عشق حکمرانوں سے ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ امین شہیدی سے میری بات ہوئی۔ اب کوئی معاہدہ نہیں ہو گا۔ صرف فیصلہ ہو گا اور اس کا اعلان بڑے حکمران کی طرف سے ہو گا۔ امینی شہیدی کہہ رہے تھے۔ جب تک حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو ہمارا مظاہرہ جاری رہے گا۔ ہزارہ کمیونٹی کے لئے یہ میرا تیسرا کالم ہے۔ اللہ کرے چوتھا نہ لکھنا پڑے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...