اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) سعودی عرب میں قیادت کی تبدیلی کے باعث پاکستان کے دوطرفہ تعلقات میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہو گی بلکہ قوی امکان یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اسے مزید استحکام ملے گا لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ شاہ عبداللہ کے انتقال سے پاکستان ایک حقیقی دوست سے محروم ہو گیا۔ دوطرفہ تعلقات سے آگاہ ایک شخصیت نے نوائے وقت کو بتایا کہ شاہ عبداللہ نے آخری دورہ پاکستان کے موقع پر کنونشن سنٹر میں کھڑے ہو کر پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے بلند کئے تھے۔ اب کوئی ایسا سعودی فرمانروا شاید نہ آئے۔ شاہ عبداللہ کی پاکستان سے محبت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 1984ئ، 1997ئ، 1998ءاور 2004ءمیں پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ تاثر ہے کہ سعودی عرب کے نئے ولی عہد شہزادہ مقرن کے دل میں بھی شاہ عبداللہ کی طرح پاکستان کیلئے محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ نئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بھی پاکستان کے قریبی دوست تصور کئے جاتے ہیں لیکن امکان یہی ہے کہ شہزادہ مقرن ہی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کریں گے کیونکہ شاہ سلمان ضعیف العمری کے علاوہ نسیان کے مرض کا بھی شکار ہیں۔ یہ کم و بیش وہی صورتحال ہے جب عبداللہ بن عبدالعزیز ولی عہد تھے اور شاہ فہد کی علالت کے باعث وہی امور مملکت چلاتے تھے۔ مذکورہ ذریعہ کے مطابق سلامتی، دفاع اور معیشت کے شعبہ میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی سطح برقرار رہے گی۔ سعودی عرب پاکستان کو ایک قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور یہ سلسلہ نئی قیادت کے دور میں بھی قائم رہیگا۔ اس ذریعہ کے مطابق سعودی عرب میں قیادت کی تبدیلی کے بجائے پاکستان کے اندر سیاسی تبدیلیاں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کی ایک واضح مثال پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا جب صدر مملکت آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا واضح جھکاﺅ ایران کی جانب تھا، تاہم پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے، پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کا پل بنی رہی ہے۔
تجزیہ/ سہیل عبدالناصر