افغانستان یا ”منی بھارت“

سانحہ اے پی ایس میں جو دردناک خونی سانحہ پیش آیا تھا، اسکے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ اس کے بعد بھی دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوگئے، مگر باچاخان یونیورسٹی پر ہونیوالا حملہ سکول کے ان معصوم بچوں کی شہادت کا غم پھر تازہ کرگیا ہے۔
آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم ، کیا گئے!
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے!
دہشتگردوں نے پھر پیچھے سے وار کیا اور بین الاقوامی میڈیا کی دوبارہ توجہ حاصل کرکے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ عالمی میڈیا ایک بار پھر ہمارے سکیورٹی اداروں خصوصاََ ضرب عضب جیسے آپریشن پر اُنگلیاں اُٹھانے لگا۔ مقام افسوس یہ کہ چارسدہ یونیورسٹی کے دہشتگردانہ واقعہ کے فوری بعد بعض ”قومی ناقدین“ نے بھی نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عمل درآمد اور عدم عمل درآمد کے موضوع پر غیر ضروری بحث کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نیشنل ایکشن پلان سیاسی و عسکری قیادت کا مرتب کردہ ایک قومی پلان تھا۔ کسی بھی انسانی منصوبے یا پلان سے صرف چودہ ماہ کی مختصر مدت میں 100 فیصد نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے منصوبوں میں بشری اور اداراتی کمزوریاں یقیناََ رہ جاتی ہیں۔ تصویر کے اس روشن پہلو سے چشم پوشی کو کسی طور مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مختصر عرصہ میں نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب آپریشن کے ثمرات پاکستان کے شمال سے جنوب تک زمینی حقیقت بن کر سامنے آئے۔
نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی میں 80 فیصد بھتہ مافیا، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا کی سرگرمیوں پر قابو پایا گیا ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 70 فیصد سے زائد کمی دیکھنے میں آئی۔ بلوچستان میں شدت پسندی اور علیحدگی پسندی کی تحریک کمزور پڑی۔ نیشنل ایکشن پلان اور ہماری فوج کی مرہون منت بلوچستان کی حکومت نے ڈاکٹر مالک کی قیادت میں ناراض بلوچ رہنماو¿ں سے مذاکرات کے ثمر خیز عمل کی داغ بیل ڈالی۔ براہمداغ بگٹی، ہربیار مری اور خان آف قلات سے رابطے کیے گئے اور انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے انسانی امکانی بساط کے مطابق بہترین کوششیں کی گئیں۔ چاروں صوبوں میں فرقہ وارانہ تخریب کاری اور دہشتگردی کے واقعات میں قابل ذکر کمی آئی۔ چاروں صوبوں میں گزشتہ سال عاشورہ محرم کے موقع پر کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔
اسکے علاوہ دہشت گردوں کو مالی امداد کی ترسیل پر پابندی کو یقینی بنانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی۔ مدارس کے نصاب کی اصلاح کیلئے وزارت داخلہ نے تمام مسالک کے علماءسے رابطے کیے اور انہیں قائل کیا کہ مدارس کے نصاب سے وہ تمام نصاب نکال دیا جائے گا جس سے مسلکی انتہا پسندی بال و پر حاصل کرتی ہے۔ لہٰذا آپریشن ضرب عضب پر سوال اُٹھانے سے قبل مذکورہ بالا فتوحات پر نظر دوڑانی چاہیے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فوج کو ابھی بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنا ہے، بیرونی چیلنجز میں بھارت سب سے آگے ہے اور بھارت تو ہمارا ازلی دشمن ہے ہی، مگر آج کل افغانستان بھی ”منی بھارت“ بنا ہوا ہے جہاں انڈیا کے 22 قونصل خانے قائم ہیں جو دن رات صبح شام پاکستان کیخلاف کام کر رہے ہیں۔ ورنہ اس غریب ملک میں اتنے قونصل خانوں کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ اور یہ خبر کہ حالیہ حملہ آوروں کا تعلق ایک ایسے گروپ سے ہے جسے بھارتی سفارت خانے سے انھی دنوں میں تیس لاکھ روپے دئیے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک اخباری خبر ہے لیکن تحقیق کرنے سے متعلقہ اداروں کو پتا چل سکتا ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ یہ ایک کھلا راز ہے کہ روس نے جب افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تو بھارت ان ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے روس کا ساتھ دیا اور پھر جب روس کو شکست ہوئی تو بھارت نے قلابازی کھائی۔ جب 2001ءمیں طالبان حکومت ختم ہوئی تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور بھارت نے افغانستان کے امریکی کٹھ پتلی حکمران کرزئی کیساتھ تعلقات استوار کئے جس کا ثمر آج سب کے سامنے ہے۔
بھارت نے مخصوص مقاصد کیلئے افغانستان کی مدد کی۔ ایک اندازے کیمطابق 2002ءسے2010ءتک پاکستان میں فروغ دہشتگردی کیلئے تقریباً 1.25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ جنرل دیپک کپور نے جنوری 2010ءمیں دھمکی دی تھی کہ وہ پڑوس کے دونوں ملکوں پر بیک وقت حملہ کرنے کی ایک ڈاکٹرین وضع کررہے ہیں جس میں اِس بات کو تسلیم کیا گیا ہے بھارت فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط ملک ہے کہ وہ بیک وقت اپنے دو ہمسایہ ملکوں سے نبرد آزما ہوسکتا ہے۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارتی فوج محض 96گھنٹے میں اسلام آباد اور بیجنگ پر قبضہ کرسکتی ہے۔ اس دھمکی سے قبل ہی بھارت چین کے صوبہ سنکیانگ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں، صوبہ خیبر کے پی کے ،بلوچستان اور صوبہ سندھ میں کراچی اور اندرون سندھ میں دہشتگردانہ کارروائیوں کو اسلحی اور مالی امدادتیز کر رہا ہے۔ اس مذموم مقصد کیلئے بھارت کے قونصلیٹ لانچنگ پیڈ کا کام دے رہے ہیں۔
حامد کرزئی اور اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ حکومتوںنے افغانستان کے دروازے بھارت کےلئے شارع عام بنا رکھے ہیں تاکہ پاکستان کو دباو¿ اور مشکلات میں رکھا جائے اور دہشتگردوں کی بلاٹوک آمدورفت جاری رہے۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ چند سال قبل یو ایس اے میں متعین ہمارے ملک کے سابق سفیر حسین حقانی نے امریکیوں کو ہزاروں ویزے جاری کیے تھے جسکے نتیجے میں بلیک واٹرز جیسی خطرناک عالمی دہشت گرد تنظیم نے یہاں مضبوط پنجے گاڑ لیے۔ را اور موساد کا بھی عمل دخل بلوچستان اور پاکستان کے دیگر مخصوص خطوں کے علاوہ افغانستان کے اندر پاکستانی سرحدوں کیساتھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں نے امریکہ کے سبکدوش ہونیوالے صدر بارک اوبامہ کے سٹیٹ آف یونین اجلاس میں آخری خطاب کو بھی بڑا معنی خیز قرار دیا ہے۔ اوبامہ نے بڑے وثوق سے کہا کہ پاکستان اگلی کئی دہائیوں تک دہشتگردی کا شکار رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کا سفارت خانہ ایک بہت بڑی فوجی چھا¶نی سے کسی طرح کم نہیں۔ واقفانِ حال مختلف مواقع پر اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ سفارت خانے کے تہہ خانے میں اتنا اسلحہ ہے جو بدترین تباہی پھیلا سکتا ہے۔ امریکہ اگرچہ ہرجنگ میں شکست کھاتا رہا ہے، مگر ان جنگوں کے ذریعے اس نے عالم اسلام کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اب افغانستان سے رخصت ہونے سے قبل وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنا کر اس واحد ایٹمی اسلامی ملک کو ناکارہ بنانا چاہتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تو افغانستان میں پائیدار قیام امن کیلئے ہمیشہ ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کرتا رہا ہے لیکن افغان ذمہ دارانکی جانب سے پاکستان میں پائیدار قیام امن کیلئے مطلوبہ تعاون تادم تحریر فراہم نہیں کیا گیا۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ تقریباً 2200 میل طویل اس سرحد کے انچ انچ کی نگرانی بادی النظر میں مشکل دکھائی دیتی ہے لیکن اسے ناممکن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ آرمی چیف کے ٹیلی فون کے بعد افغان صدر، آرمی چیف اور افغانستان میں متعینہ امریکی کمانڈر کو تمام تر توجہات پاکستان کے مفرور دہشتگردوں کو پاکستان کی تحویل میں دینے پر مرکوز کرنا چاہئیں۔ متوقع چار ملکی اجلاس عنقریب پاکستان میں ہونا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس اجلاس میں باقاعدہ افغان حکام سے مطالبہ کیا جائے کہ ملا فضل اللہ اور کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے مفرور دہشتگردوں کو بلا تاخیر پاکستان کے حوالے کیا جائے تا کہ حسب قوانین و ضوابط ان کیخلاف کارروائی عمل میں لا کر قرار واقعی سزا دی جا سکے اور بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کو شٹ اپ کال دی جائے جو پاکستان کو خمیازہ بھگتنے جیسی دھمکیاں دیتا نہیں تھکتا۔ حالانکہ سب کو یہ علم ہے کہ وہ ”منی بھارت“ کے بل بوتے پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا(انشاءاللہ)

ای پیپر دی نیشن