لاہور (کامرس رپورٹر) وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے تاریخ میں کئی مواقع ضائع کرنے کے بعد پاک چین اقتصادی راہدری کی صورت میں ایک اور موقع ملا ہے کہ ہم آئندہ دس برسوں میں معاشی قوت بن سکتے ہیں، اس معاہدے کا فائدہ کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ پاکستان اور چین کو مساوی بنیادوں پر ملے گا، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دو ممالک کے مابین معاہدہ ہے اور باہمی معاہدوںکا احترام ہوتا ہے، چین کی اجازت کے بغیر اسے منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا، اس طرح کے منصوبوں کو میڈیا میں کھیل تماشہ بنائیں گے تو پھر کوئی ملک ہم سے معاہدے نہیں کرے گا، پاک چین اقتصادی راہداری ایک یا دو سال کا نہیں 15سالہ منصوبہ ہے اور اسکی تکمیل سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں چار گنا تک اضافہ ہو جائے گا، چین پاکستان سے صرف تجارت اور لین دین کا رشتہ نہیں بنانا چاہتا بلکہ وہ ہمیں اپنی کامیابی اور خوشحالی میں شریک کرنا چاہتا ہے،5 جولائی 2013ء کو اقتصادی راہداری منصوبے کے ایم او یو پر دستخط سے پہلے کوئی طے شدہ روٹ اور نقشہ نہیں تھا، کسی کے پاس اس طرح کا کوئی نقشہ یا روٹ میں تبدیلی کا ثبوت ہے تو لے آئے ہم سزا بھگتنے کے لئے تیار ہیں، توانائی میں خود کفیل ہوتے تک انڈسٹریل زونز نہیں بن سکتے اور یہی وجہ ہے ابھی تک پاکستان اور چین کے درمیان انڈسٹریل زونز کے قیام کے لئے کوئی ورکنگ گروپ ہی قائم نہیں ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پائنا اور یو ایم ٹی کے زیراہتمام ’’ پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے کی مختلف جہتیں ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس سے سیکرٹری پائنا الطاف حسن قرشی، سابق اعزازی قونصلر برائے سرمایہ کاری اومان جاوید نواز، چین کے لاہور میں قونصلر جنرل یو بورن ، حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ، جسٹس (ر) اعجاز احمد چودھری، بریگیڈئیر (ر) حسن ملک اور ریکٹر یو ایم ٹی ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے بھی خطاب کیا۔ احسن اقبال نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری معاشی یا اقتصادی مدد کا پروگرام نہیں یہ حکومت کے خزانے میں آئے گا اور آگے ہم نے اسکی تقسیم یا بٹوارہ کرنا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم نے اس پر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ۔ بلکہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے چار ستون ہیں ۔پہلے مرحلے میں گوادر کو ترقی دینے سمیت انفر اسٹر اکچر کا کام کیا جائے گا اور صرف اس کے نتیجے میں خطے میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے چار ، پانچ گنا سرمایہ کاری آئے گی۔ دوسرا پاکستان اور چین میں اتفاق ہوا ہے پاکستان کی اپنی معیشت میں اتنی جان ہو کہ وہ شرح نمو سالانہ سات سے آٹھ فیصد پر لائے اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی معیشت کو اس قابل کرنا ہے کہ ہم اپنے وسائل پیدا کر سکیں کہ وہ اس کا بوجھ اٹھا سکیں اور اس عنصر کو بحال کرنے کے لئے توانائی کے بحران کا حل نا گزیر ہے۔ہم اپنی معیشت کی ترقی کو سات سے آٹھ فیصد پر لانا چاہتے ہیں تو ہمیں بجلی چاہئے۔ فی الوقت ہمارے پاس پہلے سے موجود کارخانوںکو دینے کے لئے بجلی نہیں ہم نئے انڈسٹریل زونز کو کہاں سے بجلی مہیا کریں گے۔ صرف سریے اور سیمنٹ سے عمارت بنا دینے سے ترقی نہیں ہو گی کیونکہ سرمایہ کار ایک مرتبہ بھاگ گیا تو وہ دس سال یہاں کا رخ نہیں کرے گا۔ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں77فیصد تقریباً35ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لئے ہیں ۔ توانائی کی مد میں35ارب ڈالر میں سے ساڑھے 11ارب ڈالر سندھ کے اندر لگائے جارہے ہیں ۔7.1ارب ڈالر بلوچستان کے اندر جبکہ تیسرے نمبر پر 6.9 ارب ڈالر پنجاب کے اندر لگائے جارہے ہیں لیکن اس منصوبے کے خلا ف پورے ملک میں مہم چلائی جائے تو یہ اس کے ساتھ اچھا عمل نہیں۔ کچھ دوستوں نے اعتراض کیا اقتصادی راہداری منصوبے میں ہائیڈل کے منصوبے کم کیوں ہیں تو میں بتانا چاہتا ہوں شمالی علاقہ جات اور خیبر پی کے میں اس کا پوٹینشل ہے لیکن حکومت خیبر پی کے میںہائیڈل پیداوار کے دو میگا پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے جن میں ساڑھے 4ہزار میگا واٹ کے داسو کے منصوبے جس کی مالیت 9ارب ڈالر ہے بنتی ہے۔ خیبر پی کے میں کرم تنگی ، منڈا ڈیم پر بھی کام ہو رہا ہے۔ ہائیڈل کے آٹھ سوسے ایک ہزار میگاواٹ کے منصوبے بھی پانچ سے سات سال میں لگتے ہیں جبکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے بجلی کی کمی کو تین سال میں پورا کرنا ہے اور کوئلے کا منصوبہ تین سال میں مکمل ہوکر چالو کیا جا سکتا ہے۔ چین چھلانگیں نہیںمارتا بلکہ مرحلہ وار آگے بڑھتا ہے اسی طرح چین نے کہا ہے اس منصوبے کو پندرہ سال میں مرحلہ وار مکمل کریں گے۔ پہلے آسان منصوبوںکو شروع کیا جائے گا تاکہ جلد از جلد نتائج پیدا کر سکیں۔ اگلے تین سے چار برسوں میں چین اور پاکستان کے درمیان روڈ نیٹ ورک کوبہتر کرتے ہوئے فوری رابطے قائم کئے جائیں گے ۔گوادر کا مغربی روٹ دسمبر 2016ء تک مکمل ہو جائے گا۔ ویسٹرن روٹ جدید بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا جارہا ہے۔ مشرقی روٹ کراچی پشاور موٹر وے کا منصوبہ ہے جو سی پیک سے نہیں جڑا ہوا ہے اور یہ مسلم لیگ (ن) کی دور حکومت کا ہی نا مکمل ایجنڈا ہے۔انہوں نے کہا چین کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم پاکستان کے ساتھ کارگو ٹرانزٹ ٹریڈ کا رشتہ نہیں بنانا چاہتے بلکہ ہم پاکستان کو صنعتی ترقی میں مدد دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ اقتصادی قوت بن سکے۔ انہوں نے کہا منصوبے کے آغاز پر بھارت کی طرف سے رد عمل آیا تھا وہ اسے نہیں بننے دے گا تاہم بعد میں اسے احساس ہو رہا ہے راہداری منصوبے سے چین سے تجارت میں بھارت کو فائدہ ہوگا اسی لئے وہ اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر رہا ہے ۔ ہم افغانستان اور بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ الطاف حسن قریشی نے کہا اس منصوبے کی افادیت کو میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے ۔ چین کے لاہور میں قونصلر یو بورن نے کہا اس منصوبے سے خطے کی مشترکہ ترقی ہو گی خصوصاً پاکستان کے عوام خوشحال ہوں گے ۔ جسٹس (ر) اعجاز احمد چودھری نے کہا منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں حکومت انہیں دور کرے ۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے کہا ہم اس منصوبے کے مخالف نہیں۔ ہم چاہتے ہیں بلوچستان اور بلوچوں کو اس منصوبے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنا چاہئے۔