”چُپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے“

Jan 24, 2017

سردار محمد اسلم سکھیرا....

آجکل پاکستان توجہ ہٹاﺅ کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے نئے شوشے پاکستان میں چھوڑے جاتے ہیں جن سے ملک سنگین بحرانوں کی زد میں ہے۔ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے لیکن بین الاقوامی ضمیر کو مردہ کرنے کیلئے نئے نئے تماشے کئے جاتے ہیں، کبھی بھارت سے سرجیکل سٹرائیک کے قصے شروع کئے جاتے ہیں، کبھی بارڈر پر ایل او سی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے توجہ ہٹاﺅ کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی بھارت پاکستان کا پانی جو کشمیر سے دریاﺅں چناب، راوی، جہلم، سندھ پر بھارت ڈیم بنانے کا عندیہ دے کر پانی کی ایک بوند بھی پاکستان آنے نہ دینے کی سکیمیں بنا کر مودی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان جو امریکی دہشت گردی جو افغانستان میں ہو رہی ہے، امریکی جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف موڑ کر پاکستان کو دہشت گردی کا بند یا گڑھ قرار دینے کیلئے سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے اور کشمیر میں ہونے والی بربریت سے توجہ ہٹانے کیلئے کر رہا ہے۔ دوسری طرف پانامہ لیکس کا چکر چل رہا ہے، حکومت وقت اور اپوزیشن اور پوری قوم کی توجہ سپریم کورٹ میں پانامہ کا کیس سننے کی طرف لگی ہوئی ہیں لیکن اصل موضوعات اور پرابلم جو پاکستان کی ہیں اُن پر کسی کی توجہ نہیں۔ شہباز شریف نے ایڈمنسٹریشن کو مضبوط کرنے کیلئے کچھ ہل جل کی تھی لیکن انہوں نے اُس کا حل آدھا تیتر آدھا بٹیر کر کے چھوڑ دیا ہے۔ اُنکے خیال میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کا اعلان کر کے سمجھ لیا ہے کہ اب اِن نام بدلنے سے حکومت کی گرفت لاءاینڈ آرڈر پر مضبوط ہو جائے گی، اُنکو داروغہ کے اختیارات بھی تفویض ہونے چاہئیں۔ جنرل نقوی، جنرل معین حیدر نے جو پٹاری سے لوکل باڈیز ایکٹ 2001ءاور پولیس ایکٹ 2001ءنکالا تھا اُسکی وجہ سے حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

جب تک 2001ءکے لوکل باڈیز ایکٹ کو 1976ءکے لوکل باڈیز ایکٹ میں تبدیل نہیں کیا جاتا اور پولیس ایکٹ 2001ءکو پولیس ایکٹ 1860ءمیں تبدیل نہیں کیا جاتا صرف نام بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مذکورہ بالا اشخاص نے جو آئینی ترامیم کی تھیں اُن کو منسوخ نہیں کیا جاتا اور جو ضابطہ فوجداری میں ترمیم اُس سلسلہ میں کی گئی تھی اُن کو منسوخ نہیں کیا جاتا صرف عہدوں کے نام بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سابقہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چودھری اور جسٹس اعجاز صاحب نے اپنے فیصلوں میں بار بار ذکر کیا کہ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
حکومت نام کی کوئی چیز ملک میں نہیں ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر یا کمشنر effective ہونگے جب انکے ماتحت مجسٹریٹ بااختیار سب ہونگے۔ جب ڈپٹی کمشنر کے ماتحت پولیس نہیں ہو گی۔ انگریزوں نے تقریباً سو سال ہندوستان پر حکومت کی، اُن کا کنٹرول ملک پر اس لئے تھا کہ انکی پالیسی کولاگو کرنا آپریٹس تھا۔ اگر ضابطہ فوجداری کو ملاحظہ کیا جائے تو S.H.O، علاقہ مجسٹریٹ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، اسسٹنٹ کمشنر کے اختیارات کا مجموعہ ہے۔ آپ نے S.H.O کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ایک پرچہ درج کرنےوالا پولیس آفیسر ہوتا ہے۔ دوسرا تفتیش کرنےوالا آفیسر ہوتا ہے لیکن انتظام کو درست کرنے کا کوئی انچارج نہیں ہوتا۔ ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو فوجداری اختیارات نہیں ہوتے۔ پہلے قانون کیمطابق S.H.O اور مجسٹریٹ مل کر لاءاینڈ آرڈر کو کنٹرول کرتے تھے اب مجسٹریٹ کے اختیارات سول ججوں کو دیئے گئے ہیں جن کا لاءاینڈ آرڈر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ خدا کیلئے پرانا سسٹم رائج کریں۔ مجسٹریٹ کو فوجداری اختیارات ہونے چاہئیں جیسے کہ پہلے تھا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ماتحت مجسٹریٹ بااختیار ہونے چاہئیں تاکہ وہ لاءاینڈ آرڈر پر گرفت مضبوط کر سکے۔ ہائی کورٹ کو بھی اب تک تجربہ ہو گیا ہو گا کہ اُن کی عزت بھی پرانے سسٹم میں کیا تھی اور اب کیا ہے۔ بھارت بھی پاکستان کیساتھ آزاد ہوا تھا وہاں ابھی تک ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو پاور حاصل ہے۔ ہر مقدمہ وہی سنتے ہیں۔ ضمانت کے اختیارات بھی مجسٹریٹوں کو ہی ہیں۔ قتل کے مقدمات کی سماعت بھی وہی کرتے ہیں۔ اگر کیس بنتا ہو تو پھر سیشن جج کو مقدمہ Commit کرتے ہیں۔ یہ سسٹم اگر بھارت میں صحیح چل رہا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں چل سکتا۔ صوبہ پختونخواہ، بلوچستان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور میں پیشتر علاقہ غیر کہلاتا ہے۔ اُس میں پولیس نہیں ہوتی۔ لیوی علاقہ سے بھرتی کی جاتی ہے اور ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ان کی بھرتی بھی کرتے ہیں جرگے کے انچارج بھی ہوتے ہیں۔ جب سے جنرل نقوی کا انتظام لاگوہوا ہے وہاں بھی لاءاینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے جو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں یہ سب جنرل نقوی کی مہربانی اور جنرل معین حیدر کے لائے ہوئے قانون کی وجہ سے ہیں۔ خدا کیلئے مجسٹریٹ بااختیار ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور کمشنر کے ماتحت کریں۔ یہ اغواءبرائے تاوان، سٹریٹ کرائم، سول ججوں اور سیشن ججوں کو عدالت میں بند کرنے کے واقعات عدالت میں فائرنگ پہلے والے قانون میں نہیں ہوتی تھی۔ مجسٹریٹوں کی بھرتی ہی مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ ہونی چاہیے اور سابقہ قانون کے مطابق مجسٹریٹ کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے۔
سینکڑوں کی تعداد میں ہائی کورٹ کے ججز کو تین پرچہ لیکر بھرتی یا Nomination بند ہونی چاہیے۔ ہر سال آسامیوں کیمطابق پبلک سروس کمیشن کو امتحان لینا چاہیے اور بعد میں جیسے ٹریننگ ہوتی تھی اور ڈیپارٹمنٹ امتحان لئے جاتے تھے وہی سسٹم رائج ہونا چاہیے۔ ہائی کورٹ رولز کے تحت جو ہائی کورٹ رولز والیم چار میں دیئے ہوئے ہیں اسی طرح اختیارات تفویض ہونے چاہئیں۔ (جاری)


Nomination کا قائدہ پہلے گورنر پنجاب مسٹر موڈی نے ختم کر دیا تھا اور آفتاب احمد خاں مرحوم آخری مجسٹریٹ تھے وہ Nomination ہوئے تھے۔ اب یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہائی کورٹ کے ذریعہ Nomination کا طریقہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ وکلاءمجسٹریٹ کی بھرتی بند ہونی چاہیے خواہ کوئی وکیل ہو یا Ordinary گریجوایٹ ہو مقابلہ کے امتحان کے بعد بھرتی ہونا چاہیے۔ جتنی آسامیاں اب وکیل مجسٹریٹوں کی سینکڑوں کی تعداد میں لی جاتی ہیں اتنی تو چپڑاسی بھرتی کرنے کی بھی آسامیاں نہیں ہوتیں۔ اب ڈیپارٹمنٹل امتحان بھی نہیں ہوتے۔ ہائی کورٹ ججز صاحبان سے بھی استدعا ہے کہ یہ سول جج مجسٹریٹ کا نظام فیل ہو چکا ہے اسے پہلے نظام میں ہی بدلنا ملک کی سالمیت اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ جو ضابطہ فوجداری، پاکستان پینل کوڈ میں جنرل نقوی نے ترامیم کرائی تھیں سب منسوخ ہونی چاہئیں۔ حال ہی میں جو واقعات ہوئے ہیں؛ ماڈل ٹاﺅن میں جو فائرنگ ڈائریکٹ پولیس نے کی اور درجنوں لوگ شہید ہوئے اگر پہلا قانون ہوتا جس کے ذریعہ پولیس کو لوگوں پر گولی چلانے کا اختیار نہیں تھا صرف مجسٹریٹ ہی گولی چلانے کی اجازت دے سکتا تھا، کوئی بھی مجسٹریٹ ڈائریکٹ لوگوں پر گولی چلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ گفت و شنید سے مسئلہ حل کرتا۔ پولیس کی وردی اشتعال کا باعث ہوتی ہے۔ مجسٹریٹ ہی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلے حل کر سکتا ہے۔
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 103 کے مطابق کسی کے گھر داخل ہونے کی اجازت مجسٹریٹ سے سرچ وارنٹ لئے بغیر نہیں ہو سکتی تھی جو اب ترمیم کر کے اختیارات پولیس کو دیئے گئے ہیں۔ ایک جماعت کے لیڈروں کے گھروں میں گھس کر پولیٹیکل ورکر کو گرفتار کیا گیا جس کی بازگشت اسمبلیوں میں بھی سنی گئی۔ 12 مئی کے واقعے میں جسٹس افتخار کو کراچی میں داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے پولیس اور مقامی پارٹی کے ورکروں نے گولیاں چلا کر درجنوں افراد کوشہید کیا ایسا ظلم کرنے کی اجازت جنرل نقوی کی فوجداری ضابطہ میں ترمیم کا ہی نتیجہ تھا ورنہ درجنوں جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔
ڈپٹی کمشنر ضلع میں حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد انسداد کی تجاویز کرنا ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ موجودہ سسٹم میں کسی کی ذمہ داری نہیں۔
سیاستدان ہمیشہ اپنی پارٹی کا نقطہ نظر سامنے رکھتے ہیں لیکن ڈپٹی کمشنر پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ملکی بہتری کیلئے انجام دہی کرے۔ قائداعظم نے بھی اپنی تقریریں جو پشاور، کراچی میں کیں ان میں یہی کہا کہ سیاستدان زیادتیاں کرتے ہیں لیکن آفیسر کو حوصلہ سے کام لینا چاہیے اور انصاف کا بول بالا کرنا چاہیے۔ قائداعظم نے بھی اپنی تقریروں میں وعدہ کیا تھا کہ ان کو آئینی تحفظ دیا جائے گا تاکہ وہ سیاستدانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہیں۔ مجھے یاد ہے جسٹس شفیع الرحمان ڈپٹی کمشنر بہاولپور تھے ان کی حسن محمود وزیر بلدیات نے سنٹرل منسٹر سے شکایت کی کہ وہ مسلم لیگ کا خیال نہیں کرتے جب سنٹرل منسٹر نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ مسلم لیگ کا خیال نہیں کرتے تو انہوں نے منسٹر کو جواب دیا کہ وہ کسی پارٹی کے نمائندہ نہیں ہیں۔ اگر کوئی لاءاینڈ آرڈر کی بات ہے تو ان سے کی جائے۔ اس طرح ملک فیروز خان نون پرائم منسٹر تھے، انہوں نے مسعود محمود کو S.P سرگودھا لگایا اور بعد میں ٹیلیفون کیا کہ انہوں نے سرگودھا سے الیکشن MNA کا لڑنا ہے۔ فضاءاس کے حق میں کی جائے تو مسعود محمود S.P نے انکار کر دیا اورکہا کہ لاءاینڈ آرڈر کی بات کریں، الیکشن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی کے دادا نے ڈپٹی کمشنر کی ممتاز دولتانہ کو شکایت کی تو ڈپٹی کمشنر ملتان نے جواب دیا کہ سر ان کا پولیٹیکل معاملات سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی لاءاینڈ آرڈر کی بات ہے تو بتائیے۔ چودھری نذیر وڑائچ کو مسٹر دولتانہ چیف منسٹر نے سرگودھا لگایا تو انہوں نے چارج لینے سے پہلے سعید قریشی جو مسٹر دولتانہ کے بہنوئی تھے کو بلایا اور کہا کہ جب تک وہ S.P سرگودھا ہیں کسی قسم کی غیرقانونی کارروائی وہ نہیں کرنے دیں گے اگر منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے تبدیل کرا دیں۔
جب آئینی پروٹیکشن ہو تو آفیسر لاءبھی آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں سیاستدان جن کا کام قانون بنانا ہے وہ قانون بنانے کے بجائے ہر کام غلط ملط کروانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے گورنمنٹ کی رٹ قائم نہیں رہی ہے۔ اگر ملک کو صحیح سمت چلانا ہے تو لوکل باڈیز ایکٹ 2001ءکو لوکل باڈی ایکٹ 1979ءمیں تبدیل کریں۔ پولیس ایکٹ 2001ءکو منسوخ کر کے 1860ءپولیس ایکٹ رائج کریں جو ترامیم آئین 1973ءمیں کی گئی ہیں ان کو منسوخ کر کے پوزیشن پر لائیں۔ ضابطہ فوجداری نے CSPC اور PPC میں جو ترامیم جنرل نقوی نے کروائی ہیں ان سب کو منسوخ کر کے اس میں پوزیشن لائیں۔ جناب خادم اعلیٰ صاحب نام داروغہ رکھنے سے فرق نہیں پڑے گا، سابقہ اختیارات بھی دیں تاکہ آپ کا لاءاینڈ آرڈر درست ہو سکے اور حکومت کی رٹ بھی قائم ہو۔
چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے
بولوں تو بڑی رسوائی ہے

مزیدخبریں