ہماری سیاست کا قبلہ کب درست ہو گا؟

Jan 24, 2017

ایم اے سلہری

سوچا جائے تو سیاست ایک مقدس شعبہ ہے تاہم جب سیاسی اُفق پر عوام الناس کی خدمت اور بہبود کی بجائے ذاتی لالچ اور ہوس اقتدار،صداقت و دیانت کی بجائے جھوٹ بدعنوانی اور کرپشن، میرٹ اور انصاف کی بجائے اقرباء پروری اور ظلم کا رنگ غالب نظر آنے لگے تو ماننا پڑے گا کہ سیاست کا قبلہ درست نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تو ابتداء میں ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کو دنیا کی عظیم مملکت بنانے کیلئے اقرباء پروری، رشوت اور بدعنوانی جیسی لعنتوں کا آہنی ہاتھوں سے صفایا کر کے مساوی برتائو اور انصاف جیسے سنہری اصولوںپر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ مگر انتہائی دکھ کی بات ہے کہ آج بھی ملک میں میگاکرپشن بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے جن مقدمات کا میڈیا پر چرچا ہے ان کے تانے بانے سیاست سے ملتے ہیں۔ جن سیاسی حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک کا سیاسی منظرنامہ آئے روز کی فوجی مداخلتوں نے خراب کیا ہے اور فوجی حکومتوں نے جمہوریت کو صحیح طور پر پروان نہیں چڑھنے دیا۔کسی حد تک اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سوال کے جواب کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے کہ جنرل ایوب خاں سے لیکر جنرل مشرف تک کونسی فوجی حکومت میں سیاستدان بڑھ چڑھ کر شامل نہیں رہے۔خود مسلم لیگ نے مختلف سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ فوجی حکومتوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھر کیسے سیاستدان خود کو جمہوریت کی شکل بگاڑنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ کسی نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا تو کسی نے جاگ پنجابی جاگ کہا،کسی نے عدلیہ کو کنگرو کورٹس کہا تو کسی نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے فخر محسوس کیا، کسی نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تو کوئی فوج کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے فوج سے حساب مانگنے کی بات کرتا ہے۔اگر سابقوں اور لاحقوں کے فرق کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے توکوئی شبہ نہیں رہتا کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک جو سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار سے چمٹی رہی ہیں وہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ موجودہ حکمران مسلم لیگ کے ساتھ ’’ن‘‘ کا لاحقہ ہے اور گذشتہ ادوار میں کبھی ’’ج‘‘ کبھی ’’ق‘‘ اور کبھی ’’کنونشن‘‘ کے سابقے لاحقے حکمران مسلم لیگ کے ساتھ لگتے رہے۔ لہٰذا اب جبکہ ناقص نظام اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے کرپشن بدعنوانی اور اقرباء پروری جیسی لعنتیں پروان چڑھ چکی ہیں، جمہوریت کے اس حال کے حوالے سے سیاستدانوں کا فوج کو مورد الزام ٹھہرانا بے جواز ہی نہیں غیرمنصفانہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ آئین اگرچہ سیاستدانوں پر مشتمل ادارے نے بنایا ہے مگر عدلیہ اور فوج انتہائی محترم آئینی ادارے ہیں جنہیں بے توقیر کرنے کا سیاستدانوں سمیت کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو آج تک ان کی سمجھ میںنہیں آیا۔ اپنی کرسی کی فکر میں یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ملک و قوم کی بقاء میں ان اداروں کا کلیدی کردار ہے۔ رانا ثناء اللہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کس کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے وزیر اعظم کو ہٹانے کی کسی کوشش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے معزز عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے گا قوم کو قبول ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ ایک صوبائی وزیر قانون کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا بھی احساس نہیں ،خواجہ آصف وزیر دفاع ہونے کے باوجود میڈیا پر فوج کے خلاف باتیں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کیاان کا یہ نامناسب انداز اس وزارت کیلئے ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان نہیں ؟ کیا ان وزیروں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کبھی عدلیہ اور کبھی فوج سے تصادم مول لینے کے حوالے سے پہلے ہی ان کی جماعت کے خلاف قوم کے تحفظات کچھ کم نہیں، انہیں مزید غیرذمہ دارانہ رویوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سیاسی لوگ اپنی طاقت کے نشے میں اداروں کا احترام کرنا کیوں بھول جاتے ہیں۔کیا پارلیمان کی طرح ان دو اہم ترین اداروں کو بھی کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت میں مقننہ کا ادارہ قانون سازی میں آزاد ہوتا ہے مگریہ تو پہلے ہی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے اور صرف اقتدار کی باریوں کے تحفظ کی ذمہ داری پر مامور نظر آتا ہے۔ سیاستدانوں کی چیرہ دستیوں نے اس مؤقر ادارے کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے جو صرف وزیر اعظم کے گرد گھوم رہا ہے ۔سمجھ سے باہر ہے کہ اداروں کو اس قدر بے حیثیت کرنے کی کیا منطق ہے۔ ایک فوج ہے جو عوام کی امنگوں کے مطابق سرحد وں کی حفاظت میں مگن اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹ رہی ہے یا پھر عدلیہ کا ادارہ ہے جو قوم کی توقعات پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مگر لگتا ہے کہ اقتدار کے نشے میں چور یہ سیاسی حکمران نہ صرف معزز اداروں کی تکریم کرنے سے قاصر ہیںبلکہ خود جمہوری قدروں سے بھی نابلد ہیں ۔ سیاسی راہنمائوں کی جمہوری قدروں سے نا آشنائی اور بے رخی نظام میں کرپشن بدعنوانی اور اقرباء پروری کی بڑی وجہ ہے ۔ یہاں جمہوریت کا مطلب منتخب حکومت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ ا گر ہم چاہتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہو ، جمہوریت کی شکل کچھ بہتر ہو اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں تو ہمیں پہلے اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ ہماری سیاست کا قبلہ کب درست ہوگا؟

مزیدخبریں