یہ حقیقت ہے کہ ماضی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ زمانہ قدیم میں کی گئی غلطیاں بھی جب آشکار ہوتی ہیں تو شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان دنیا پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا تو بظاہر نیوٹرل ملک امریکہ پر حملہ اس کی شکست کا باعث بنا۔ طاقت کے زعم میں اس نے پرل ہاربر پر حملہ کیا اور جانی و مالی نقصان کا انمٹ نقش چھوڑا۔ اس زخم میں مبتلا امریکہ نے تاریخ انسانی کا سب سے بڑا جرم کیا اور پرل ہاربر پر بمباری کا بدلہ لینے کے لئے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا دئے۔ لاکھوں لوگ چشم زدن میں موت کا شکار ہو گئے اور کئی نسلیں ان بموں کے اثرات کے نتیجے میں متاثر ہوئیں۔
اب جاپانی وزیراعظم لاکھ بار بھی پرل ہاربر کی یادگار پر حاضری دیں وہ اپنے پرانے حکمرانوں کے کئے گئے مظالم کا ازالہ نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح بے شک ہر امریکی صدر ہیروشیما اور ناگا ساکی کے ہلاک شدگان کے لئے آنسو بہا لے وہ اپنے بزرگوں کی کی گئی درندگی کو مٹا نہیں سکے گا۔ برطانیہ نے بے بنیاد اطلاعات پر امریکہ کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا جو لاکھوں لوگوں کی موت کی وجہ بنا۔ اس پر جب بھی بات ہو گی برطانیہ کو جھوٹے اور متعصب ملک کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
نریندر مودی بے شک سوا ارب بھارتیوں کے سر پر وزیراعظم بن کر سوار ہیں۔ لیکن وہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام اور بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعات سے پیچھا نہیں چھڑوا سکتے ۔ ان کے دور حکومت میں اقلیتوں‘ خصوصاً مسلمانوں پر جو ظلم و ستم جاری ہیں۔ یہ ان کے مستقبل کو کبھی بھی روشن نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا دور تاریک دور گردانا جائے گا اور انہیں ہمیشہ بدترین حکمران کے خطاب سے نوازا جائے گا۔ کچھ ایسا ہی بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت کے بارے میں بھی کہا جائے گا۔ آج وہ پورے ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھی ہیں۔ لیکن ان کے کندھوں پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بزرگوں کی پھانسیوں کا وزن ہمیشہ رہے گا۔ ہزاروں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کرنے اور ان کو اذیتیں دینے کا معاملہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں پانامہ کا کیس ماضی کے کئے گئے جرائم سے پردہ اٹھا رہا ہے جو کام آج سے چالیس‘ پچاس سال پہلے ہوئے آج ان کا حساب مانگا جا رہا ہے۔ جائز و ناجائز طریقوں سے دولت بیرون ممالک روانہ کی گئی۔ ان سے آف شور کمپنیاں‘ ملیں اور محل خریدے گئے ۔ آج جب پردہ اٹھ رہا ہے تو بڑے بڑے پردہ نشین بے نقاب ہو رہے ہیں۔ ابھی ان پردوں کے پیچھے اور بھی بہت کچھ باقی ہے۔ آج شریف خاندان زیر عتاب ہے تو کل پی پی بھی اسی رگڑے میں آنے والی ہے۔ تحریک انصاف کی بھی کئی شخصیات اسی زمرے میں آئیں گی۔ خود خان صاحب کی بھی ایک آف شور کمپنی ہوا کرتی تھی۔ وہ معاملہ اگر بہت کلیئر بھی ہے تو بھی اس کا حساب مانگنے کے لئے کوئی نہ کوئی اٹھ کھڑا ہو گا۔
وزیراعظم کی کی گئی تقریروں اور میڈیا بیانات میں تضاد کی وجہ سے آج وہ اپنے خاندان سمیت کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ یہی متضاد بیانات خان صاحب کے لئے بھی خطرے کا باعث ہیں کیونکہ میڈیا ہرچیز کو واچ کرتا ہے اور بوقت ضرورت انہیں سامنے بھی لاسکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم آج جو کام کر رہے ہیں وہ کل ہمارا ماضی بننے والا ہے جو مستقل ہمارے سر پر تلوار بن کر لٹکتا رہے گا۔ ہم جیسے ہی نظر میں آگئے اسی وقت یہ تلوار ہم پر آ گرے گی اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔