سرینگر (آن لائن+اے این این+این این آئی) مقبوضہ کشمیر میں ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ نوجوان مظفر احمد راتھر کوبھارت کی ایک عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائے جانے کے خلاف کولگام میں شدید احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ بھارتی پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ مظفر احمد راتھر کو بھارت کے شہر کولکتہ کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ گزشتہ روز کولگام کے دیگر علاقوں میں بھی مظاہرین مظفر احمد کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرین نے کولگام کے ڈپٹی کمشنر آفس تک مارچ کی کوشش کی لیکن بھارتی پولیس نے مظاہرین کو چانسر کے مقام سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ مظفر احمد کے اہلخانہ نے کہا کہ گزشتہ 9سال میں انکے گھر کوئی آیا اورنہ مظفر احمد کو چھڑانے کیلئے کسی نے ان کی کوئی قانونی یا مالی معاونت کی۔گھر کی مالی حالت انتہائی کمزور ہونے کے باعث ہم مظفر کے لیے کوئی وکیل کرسکے نہ اسے سزائے موت سے بچا سکے۔ ہمیں انصاف دلایا جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مظفر احمدکے خلاف کسی پولیس تھانے میں کوئی کیس درج نہیں ہے۔ادھر مقبوضہ کشمیر کی ریاستی انتظامیہ 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کیلئے متحرک ہے جبکہ حریت قیادت کی جانب سے بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ منانے کی اپیل پر ابھی سے راستوں کی بندش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے وادی کے مختلف علاقوں میں پولیس و سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ گھر گھر تلاشی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ٗ ایک درجن سے زائد نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ریاستی پولیس سربراہ نے ٹنل کے آر پار ہائی الرٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے سیکورٹی فورسز کو متحرک کردیاگیا ہے۔ وادی میں26جنوری کی آمد سے قبل ہی بڑے پیمانے پر تلاشیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔سرینگر کو دیگراضلاع سے ملانے والی سڑکوں پر بھی تلاشیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور کئی ایک جگہوں پر خصوصی ناکے لگائے گئے ہیں۔دوسری جانب لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے جیل سے بھیجے گئے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ پولیس اور سول انتظامیہ سبھی قوانین اور مسلمہ اصولوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔انہوں نے کہا کہ 14 برس کی عمر کے بچے سے لیکر 58 برس کے بزرگ تک کی عمر والے ہزاروں لوگ جیلوں اور پولیس تھانوں میں بند ہیں اور ان کی اکثریت عدالتوں سے رہائی کے احکامات کے بعد پولیس کے ہاتھوں دوبارہ گرفتاری کی سزا کاٹ رہی ہے۔ ادھر بارہمولہ کے تحصیل رفیع آباد کے نادی ہل گائوں میں بھارتی فوج نے پیش امام کو تشدد کے بعد نالے میں پھینک دیا۔نماز فجر کی امامت کے فرائض انجام دینے کے بعد 26 سالہ پیش امام محمد اشرف شیخ گھر جا رہے تھے راستے میں سکیورٹی فورسز نے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔ لوگوں نے امام مسجد کو فوری طور ضلع ہسپتال بارہمولہ منتقل کر دیا۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور نام نہاد اسمبلی کے رکن انجینئر رشید نے کہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں اور مغربی پاکستان کے مہاجرین کی باتیں کرنی والی قابض انتظامیہ اورمتعصب قوتوں کو سانبہ کے علاقے رام گڑھ سے زبردستی بے دخل کئے گئے سینکڑوں مسلم خاندانوں کا دکھ درد کیوں نظر نہیں آتا اور کوئی ان کی بحالی کی بات کیوں نہیں کرتا؟ انجینئر رشید نے وجے پور کے علاقے بروٹیاں میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ـکہ 22جون 1999ء کوبھارتی فوج نے عبداللہ بستی رام گڑھ میں آباد سینکڑوں مسلمان خاندانوں کو ایک دن کیلئے بستی خالی کرنے کے لیے کہا لیکن تب سے آج تک یہ لوگ مہاجرت اور کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔