چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب گورنمنٹ کو وارننگ دی ہے کہ اگر اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ اورنج ٹرین جسے منصوبوں کو بند کردیں گے جن کی وجہ سے حکومت ان اہم مسائل کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ اس سے پہلے عزت مآب چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کو کورٹ میں طلب کر کے پینے کے پانی میں آلودگی کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ پاکستانی عوام کو جہاں دوسرے بے شمار مسائل درپیش ہیںوہاں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے ۔خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر پانچویں بچے کو پانی سے متعلق کوئی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ ہر سال تیس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو کثافت زدہ پانی کی وجہ سے مختلف مرض لاحق ہو جاتے ہیں ۔ان میں پیٹ کی بیماریاں ، ہپا ٹائٹس، ہیضہ ، معدے کی پتھری ،یرقان اور دوسرے کئی مرض شامل ہیں ۔ ان میں سے دس لاکھ ہر سال ان بیماریوں کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں ان میں دو لاکھ پچاس ہزار پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں ۔ یہ صورتِ حال ہر سال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے ۔ دیہات کا تو خیر اللہ ہی حافظ ہے خود بڑے شہروں جیسے کراچی ، لاہور ، فیصل آباد ، راولپنڈی میں فراہمیِ آب کی صورتِ حال انتہائی دگر گوں ہے ۔ گھروں میں زنگ آلود ، کثیف بلکہ گندا پانی سپلائی ہو تا ہے اگر اسے اُبال کر نہ پیا جائے تو بیماروں اور مرنے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
آسٹریلیا میں واٹر سپلائی کے محکمے کا دعویٰ ہے کہ ہم بارش کا قطرہ گرنے سے لے کر گھر کی ٹونٹیوں تک مکمل سپلائی سسٹم پر نظر رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس پانی میں کسی بھی مرحلے پر کوئی خلافِ صحت آمیزش نہ ہونے پائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام آسٹریلین بلا خوف وخطر ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں ۔ یہ مکمل طور پر صاف ، شفاف اور جراثیموں سے پاک ہے ۔پورے آسٹریلیا میں پانی سے متعلق کسی بیماری کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ آسٹریلیا کے کسی ڈیم یا واٹر پلانٹ کے انتظامات دیکھ کر کوئی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
دوسری طرف راولپنڈی کا راول ڈیم جہاں سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں پانی سپلائی ہوتا ہے یا کراچی کی کلری جھیل جہاں سے پورے کراچی کو پانی سپلائی ہوتا ہے کی صورتِ حال دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ شہریوں کو کیسا پانی سپلائی کیا جا تا ہے ۔وسائل کی کمی کا بہانہ اپنی جگہ لیکن گندگی اور بدانتظامی منہ چڑھ کر بول رہی ہوتی ہے ۔ہمارے دریائوں ، نہروں ، ڈیموں اور دوسرے آبی ذخائر کا جو حشر ہو رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے پچیس تیس سال میں ہم بوند بوند کو ترسیں گے ۔ اس وقت ہم سوچیں گے کہ کاش ہم نے وہ حکمران منتحب کئے ہوتے جو گلی گلی میں اقتدار کا رونا رونے کے بجائے ملک کے مستقبل کے لئے کچھ کرتے ۔کیا پاکستانی شہریوں کو صاف پانی پینے کا بھی حق حاصل نہیں ۔
شہروں میں کراچی کی حالت سب زیادہ خراب ہے جہاں باقاعدہ سیورج کا گندا پانی زیرِ زمین ٹوٹی ہوئی سپلائی لائنوں میں شامل ہو رہا ہے۔ یوں گھروں میںجو پانی آرہا ہے اس میں انسانی فضلہ بھی شامل ہے ۔اس سے زیادہ ناگفتہ بہ صورتِ حال کیا ہو گی ۔ اس کے باوجود شہر کی مقامی اور صوبائی حکومت کوئی ذمہ داری لینے یا کوئی مثبت قدم اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے پر اور مرکزی حکومت پر الزام لگا کرا پنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہی ہیں ۔ اس بنیادی انسانی مسئلے پر بھی سیاست چمکائی جاتی ہے جو انتہائی شرمناک امر ہے۔عوام کا بنیادی حق نہ دے کر یہ حکومتیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے بدلے بھٹو زندہ ہے اور لسانیت کے نام پر عوام کو مسلسل دھوکا دیا جا رہا ہے ۔
دوسری طرف پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں اور حکمران پارٹیاں عوام کے بنیادی مسائل کو مسلسل نظر انداز کر کے باہم دست و گریباں ہیں۔ عوام بھی اپنا حق مانگنے کے بجائے حکمرانوں کی کرسی کی جنگ میں ایندھن بننے کے لئے ہر وقت تیا ر بیٹھے ہو تے ہیں ۔تحریکِ انصاف کا وعدہ تھا کہ وہ ملک میں درجنوں ڈیم بنائیں گے اور اسپتالوں کی حالت بہتر بنا کر عوام کی زندگیوں میں بہتری لائیں گے انہوں اس ضمن میں کچھ کام کیا بھی ہے لیکن ہنوز دلی دور است ۔ہمارا میڈیا بھی سیاسی چپقلش ، بیان بازی، بحث مباحثے اور سیاسی ڈراموں کی کوریج میں مصروف رہتا ہے اور عوامی مسائل کو اس طرح ہائی لائٹ نہیں کرتا جس طرح کرنا چائیے۔ہمارا پورا معاشرہ سیاسی مباحثوں میں اس طرح الجھا ہوا ہے جیسے ان کے سارے مسائل ہو چکے ہیں صرف یہ طے کرنا باقی ہے کہ کون سا لیڈر اچھا ہے اور کون سا برا ۔ اگر یہ طے ہو گیا تو ان کے سارے مسائل یکمشت حل ہو جائیں گے ۔ٹی وی مباحثوں میں اگر ہر لیڈر سے ان کی پارٹی کے منشور ، ان کے وعدے جو الیکشن کے دوران کئے جاتے ہیںاور ان کی کارکردگی کا ذکر کیا جائے تو شاید انہیں کچھ شرم آئے ۔
لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی جیسے شہروں میں پینے کا جو پانی سپلائی ہوتا ہے وہ کثافت زدہ ، زنگ آلود اور جراثیم زدہ ہے ۔ جس کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس اور دوسری بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا پانی سپلائی ہو اور کوئی شخص اس کی وجہ سے بیمار پڑ جائے تو وہ حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کر دے گا ۔ ایسے عوامی مسائل کی وجہ سے حکومت ختم ہو سکتی ہے اور متعلقہ پارٹی کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ ایسے بنیادی عوام مسائل کو نظر انداز کر کے جمہوری حکومت تو درکنار کوئی آمر بھی حکومت میں نہیں رہ سکتا ۔ جب کہ ہمارے ہاں ستر سال سے یہ مسائل موجود ہیں لیکن حکمران پھر بھی نہ صرف دھڑلے سے حکومت کی کرسی پر براجمان رہتے ہیں بلکہ بار بار الیکشن جیت کر عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ عوام کو اپنے حقوق کا ادراک ہے نہ مانگنے کا سلیقہ ہے ۔ وہ حکمرانوں کے پیچھے نعرے لگاتے ہیں لیکن ان سے اپنا حق نہیں مانگتے نہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہیں ۔ عوام کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔بقول اقبالؔ
اے ظلم کے ماتو لب کھولو ، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھ گا ،کچھ دور تو نالے جائیں گے