مرد، عورتیں، بچے، بچیاں، جوان، بوڑھے سبھی منو بھائی کہتے تھے۔ سوائے ان کی بیگم کے۔ اس لیے وہ جگت بھائی تھے۔ احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر کے نام منو بھائی کی نظم ہے…؎
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
سانوں ساڈے خواب دوا دیو
خواباں دے وچ رہندی عمر لنگھائیے
جے کر خواب دوا نہیں سکدے
سانوں ساڈی نیند لے دیو
اسیں وی اپنے بچیاں دے لئی
کجھ تے چھڈ کے جائیے
منو بھائی کا لکھا ٹی وی ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ پنجاب، پنجابی ماحول، پنجابی وسیب اور پنجابیوں کی نجی و مجموعی سائیکی کا سب سے زیادہ ترجمان اور ایک طرح کا محافظ بھی ہے۔ ان سب علمی، ادبی اور تخلیقی حیثیتوں سے بڑھ کر وہ ایک کھرے، سچے اور بے ریا قسم کے انسان اور دوسروں سے محبت کرنے والے ’’یاراں دے یار‘‘ تھے۔ منو بھائی 6فروری 1933ء بروز جمعرات رمضان شریف کی ستائیسویں کو وزیر آباد کی تحصیل گلی حویلی شیشیاں والی میں پیدا ہو کر 19 جنوری 2018ء میں یکم جمادی الاول کو انتقال کر گئے۔ شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی ’’ہم زاد‘‘ ہیں یعنی دونوں کا سن پیدائش اور تاریخ ایک ہے۔ شفقت تنویر مرزا 20 نومبر 2012ء میں وفات پا گئے۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد منو بھائی نے کالم لکھا ’’ہمارے باہمی تعلقات میں ایک ’’جڑواں پن‘‘ پایا جاتا ہے۔ ایک ہی شہر میں ایک ہی روز پیدا ہونے کے علاوہ ہم کالج فیلو بھی تھے۔ پسند اور ناپسند میں بھی اشتراک پایا جاتا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک ہم نے ایک ہی اخبار کے ایک ہی دفتر کے مشترکہ کمرے میں ایک ہی میز پر کام کیا۔ اکثر اوقات ہنسنے اور رونے میں بھی ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اتفاقات کے علاوہ ہمارے اختلافات بھی ایک جیسے تھے۔ یہاں تک کہ دوست اور دشمن بھی تقریباََ مشترکہ رہے‘‘
میری کتاب ’’فیض اور پنجابی‘‘ فیض احمد فیض کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر جنوری 2011ء میں شائع ہوئی۔ اس کتا ب کی تعارفی تقریب کتاب کے ناشر فرخ سہیل گوئندی کے آفس میں منعقد ہوئی۔ مہمان خصوصی منو بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ’’تنویر ظہور نے بہت اچھا کام کیا۔ اس نے فیض احمد فیض کے پنجابی پہلو کو دریافت کیا ہے۔ استاد دامن بھی فیض سے بہت پیار کرتے تھے۔ فیض صاحب نے جو پنجابی شاعری کی، اس میں بھی لوگوں کے دکھ درد اور محنت کشوں کا ذکر ہے۔ میں نے ایک مرتبہ فیض صاحب سے کہا کہ میں نے اردو میں شعر کہنے کی کوشش کی، چند شعر بھی کہے مگر بات نہیں بنی۔ فیض صاحب نے مجھ سے پوچھا تم خواب کس زبان میں دیکھتے ہو؟ میں نے کہا، پنجابی میں۔ کہنے لگے، پھر شاعری بھی پنجابی میں کرو یعنی وہ زبان جس میں ماں لوری دیتی ہے اور اپنی بیٹی کے لیے روتی ہے‘‘ ۔ منو بھائی نے فیض صاحب کی بات پر عمل کیا اور ان کا پنجابی شعری مجموعہ ’’اجے قیامت نہیں آئی‘‘ 2000ء میں شائع ہوا۔ منو بھائی نے اپنی ماں کی وفات پر کالم لکھا۔ چند فقرے ملاحظہ کریں ’’ماں اور بیٹے کا یہ رشتہ اور یہ تعلق جو 6 فروری 1933ء کو شروع ہوا تھا یکم مارچ 1983ء کی صبح کو 10بجے تک قائم رہا اور پھر اچانک ٹوٹ گیا۔ اکاون برس کے اس رشتے اور تعلق کو بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ محبت اور پیار کے اتنے بڑے سمندر کو الفاظ کے کوزے میں کیسے بند کیا جا سکتا ہے؟‘‘ 24برس بعد منو بھائی محبت اور پیار کے سمندر یعنی اپنی ماں کے پاس پہنچ گئے۔ تقریباََ تیس برس قبل میں نے بچپن کے حوالے سے منو بھائی کا انٹرویو کیا تھا۔ منو بھائی نے بتایا کہ ابتدائی عمر میں بہت لکنت کرتا تھا۔ گلی محلے کے بچے ’’منیر تھتھا‘‘ پکارتے تھے۔ اپنی اس کمزوری کی وجہ سے بہت سزا پائی۔ سوالوں کے جواب آتے بھی ہوتے تو زبان سے ادا نہ کر سکتا اورپٹائی ہو جاتی۔ ایک ماسٹر صاحب نے تو اتنا مارا کہ دانتوں سے اور کان سے خون نکل آیا۔ والد صاحب ریلوے میں سٹیشن ماسٹر تھے۔ اس لیے جگہ جگہ تعلیم حاصل کی۔ پہلی جماعت یعنی کچی اور پکی مشن ہائی سکول وزیر آباد میں دوسری، تیسری اور چوتھی تحصیل گوجر خان میں کلیام اعوان کے قریب ایک چھوٹے گاؤں چھنی عالم شیر سے کی۔ چوتھی کا وظیفے کا امتحان ساگری میں دیا۔ ممتحن ایک سردار جی تھے۔ انہوں نے کہا، پسندیدہ شعر سناؤ۔ میں نے یہ شعر سنایا…؎
گر بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ انا الملوک
سلطنتِ اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
سردار جی نے رعب میں آ کر پاس کر دیا۔ پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور نویں جماعت ضلع میانوالی کے شہر کلور کوٹ کے ایم بی ہائی سکول سے پاس کی۔ میٹرک تین سالوں میں کیا۔ ایک سال وزیر آباد میں فیل ہوا۔ دوسرے سال پرائیویٹ طور پر فیل ہوا۔ تیسرے سال ضلع راولپنڈی کے گاؤں لوہی بھیر میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) میں بھی تعلیم حاصل کی۔
گھومنے پھرنے کا مجھے بچپن ہی سے شوق تھا۔ نئے نئے لوگوں سے ملنا، ان کی باتیں سننا، انہیں کام کرتے دیکھنا، میرے محبوب مشاغل تھے۔ وزیر آباد میں چاقو چھریاں بنانے والوں کے پاس پہروں بیٹھا، انہیں کام کرتے دیکھتا تھا۔ ریتی جب شورے میں دھلتی تھی تو میں بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ زمانۂ طالب علمی کے دوستوں میں شفقت تنویر مرزا، پروفیسر فتح محمد ملک، شورش ملک، عنایت الہی ملک، خاور رضوی، انوار فیروز، منظور طارق، کنور خالد محمود اور قمرالزمان شامل ہیں۔ تاریخ جغرافیہ میری دلچسپی کے مضامین میں شامل تھے مگر زیادہ نمبر اردو اور فارسی میں ملتے رہے۔ حساب، الجبرا اور جیومیٹری سے سخت نفرت تھی۔منیر احمد قریشی سے منو بھائی مجھے احمد ندیم قاسمی نے بنایا۔ جنہوں نے ’’امروز‘‘ میں پہلی بار میری پنجابی نظم شائع کی اور اوپر میرا وہ نام لکھ دیا جو میری بہنوں نے مجھے دیا تھا۔ یہ منو بھائی میرے ساتھ چپک کے رہ گیا اور مجھے بھی اچھا لگا۔ وزیر آباد کا مشن ہائی سکول تو میرے گھر کے قریب تھا مگر کلیام اعوان کے ریلوے سٹیشن سے چھنی عالم شیر کا فاصلہ دو میل سے کم نہیں تھا۔ راستے میں گہرے کھڈے تھے۔ بل کھاتی پگڈنڈیاں تھیں۔ کلور کوٹ قیام پاکستان سے پہلے ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت کا شہر تھا۔ دراصل کلورکوٹ دو شہروں پر مشتمل تھا۔ ایک ہندو شہر جو اس زمانے میں خاصا جدید تھا دوسرا مسلمان شہر۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ نئی نسل کو وہ کچھ کرنا چاہیے جو دراصل ہمیں کرنا چاہیے تھا مگر ہم نہیں کر سکے۔ پیار کی خوشبو پھیلائیں ۔ علم کی رونق بڑھائیں اور اپنے لیے نئی راہیں ڈھونڈیں۔ نئے افق تلاش کریں۔