اسلام آباد (این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ)قومی احتساب بیور و کے چیئر مین جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد 43مقدمات کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ 435 آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ جلد متعلقہ اداروں سے لینے کے ساتھ تحقیقات وقت پر مکمل کی جائیں ٗنیب میں اب مقدمات سالہا سال نہیں چلیں گے ٗ تمام شکایات کی جانچ پڑتال ،انکوائریاں قانون اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر پہلے سے طے شدہ مقررہ وقت پر منطقی انجام تک پہنچائی جائیں۔ احتساب سب کیلئے کی پالیسی پر عمل کر تے ہوئے میرٹ ٗ شفافیت ٗ ایمانداری ٗ لگن اورقانون کے مطابق احتساب ہوتا ہوا نظرآنا چاہیے۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی۔43مقدمات کی منظور ی دی جن میں 22مقدمات میں انوسٹی گیشن شامل ہیں پر اب تک کی جانے والی پیشرفت کا جائزہ لیا جس کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ انکوائریاں منطقی انجام تک پہنچائی جائیں کیونکہ ملک کا ہر شخص نیب کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ اب احتساب سب کیلئے کی پالیسی پر عمل کر تے ہوئے میرٹ ٗ شفافیت ٗ ایمانداری ٗ لگن اورقانون کے مطابق احتساب ہوتا نظرآنا چاہیے ۔ نیب نہ تو کسی سے انتقام پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی اور فرد سے نیب کا تعلق ہے ۔چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب افسربلا امتیاز اور کسی دبائو اور سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے فرائض صرف اور صرف ٹھوس شواہد ٗ میرٹ ٗ شفافیت اور قانو ن کے دائرے میں رہتے ہوئے سر انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ جو افسر میرے کام کی رفتار کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتے ان کو اپنی رفتار بڑھانا ہو گی وگرنہ نیب میں ایسے افسروں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔انہوںنے کہاکہ اب صرف اور صرف کام ، کام اور کام ہو گا ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ پانامہ اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کی گئی 435 پاکستانی افراد کی آف شور کمپنیوں جن میں ذوالفقار بخاری کی 15 کمپنیاں ، سینیٹر عثمان سیف االلہ اور ان کی فیملی کی 34 آف شور کمپنیاں، علیم خان کی برطانیہ میں 4 آف شور کمپنیاں، مونس الٰہی کی آف شورکمپنی اور دیگر افراد کی آف شور کمپنیوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا اور ایف بی آر ،ایس ای سی پی، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نادرا سے متعلقہ ریکارڈ کی فراہی میں سست روی پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ 435 آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ جلد ازجلد متعلقہ اداروں سے لینے کے ساتھ ساتھ تحقیقات وقت پر مکمل کی جائیں۔ چیئرمین نیب نے ملتان میٹرو بس پراجیکٹ اور پنجاب میں قائم 56 پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کا مکمل ریکارڈ نہ ملنے 56 میں سے 52 کمپنیوں کاریکارڈ ملنے اور نیب کی طرف سے 4 خط لکھنے کے باجود مزید چار کمپنیوں کا ریکارڈ جن میں سے2کمپنیوں صاف پانی کی کمپنی اور پنجاب پاور کمپنی کا ریکارڈ جو کہ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کے پاس ہونے اور ان کے عدم تعاون کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے متعلقہ 4 کمپنیوں کا ریکارڈ لینے کی ہدایت کی تاکہ 56 پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کیخلاف تحقیقات قانون کے مطابق مکمل کی جائیں ۔ چیئرمین نیب نے وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل، پرائم منسٹر یوتھ بزنس پروگرام سکیم میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بے ضابطگیوں ، سابق چیئرمین ریلوے عارف عظم کیخلاف شکایت کی جانچ پڑتال، این ٹی ایس کیخلاف مبینہ بدعنوانی، پیراگون سٹی لاہور ایڈن ہائوسنگ اینڈ ڈویلپرز لاہور اور راولپنڈی ریلوایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کیخلاف انکوائری منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کی۔ چیئرمین نیب نے شیخ زید ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر اجمل حسن کی طرف سے ہسپتال کی دل کے امراض کے علاج کیلئے کروڑوں روپے سے خریدی گئی سرکاری مشینری کو اپنے کلینک پر لے جانے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی لاہور کو ہدایت کی کہ شیخ زید ہسپتال لاہور کے ڈاکٹراجمل حسن کے خلاف انکوائری کی جائے۔ چیئرمین نیب نے سابق وزیر ریلوے ظفر علی لغاری، ڈاکٹر فضل اللہ پیجوہو سیکرٹری ہیلتھ سندھ، سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، آغا ظفر اللہ درانی سابق ڈی جی واٹر مینجمنٹ، کیپٹن (ر) صفدر ایم این اے، بلوچستان کے وزیر محمد خان شہوانی، امداد میمن ڈی جی مانیٹرنگ کراچی، سید ناصر علی شاہ سابق ایم این اے ، جعفر خان مندوخیل صوبائی وزیر بلوچستان، عبید اللہ جان بابت صوبائی وزیر جنگلات بلوچستان، ڈاکٹر مجیب الرحمن سابق آئی جی بلوچستان، ضیلاح مل سابق سپیشل اسسٹنٹ برائے وزیراعلی سندھ، احمد حسین ڈاہر سابق ایم پی اے، جواد کامران کھر سابق ایم پی اے، سرداراحمد علی دریشک ایم پی اے ، مظفر گڑھ میں ڈسٹنس لرنگ پروگرام ، قومی وزارت ہیلتھ سروسز کے افسران / اہلکاروں کیخلاف شکایات کی جانچ پڑتال کا جائزہ لیا اور سست پیش رفت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مقررہ وقت کے اندر تمام شکایات کی جانچ پڑتال مکمل کرنے کی ہدایت کی۔