سانحۂ ساہیوال … کئی سوال کھڑے ہو گئے

سانحۂ ساہیوال نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سی ٹی ڈی کی اس کارروائی میں چار ہلاکتیں ہوئیں۔ مرنے والے معصوم تھے یا دہشت گرد۔؟ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پوری حقیقت سامنے آئے گی اور معلوم ہو سکے گا کہ سی ٹی ڈی کے اس بیان اور مؤقف میں کس حد تک صداقت ہے کہ مرنے والوں کا تعلق داعش سے تھا۔ چند روز قبل فیصل آباد میں سی ٹی ڈی کی کارروائی میں داعش کے جو مبینہ دہشت گرد مارے گئے ، ساہیوال میں مارے جانے والے مولوی ذیشان کا تعلق اُن سے جوڑا جا رہا ہے۔کہانی ایک ہی ہے۔ لیکن اس کہانی میں سی ٹی ڈی نے جتنے مؤقف اختیار کئے اُس نے ساہیوال کی اس مبینہ کارروائی کو مشکوک بنا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس واقعہ کے پیش منظر میں میڈیا اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرتا تو اب تک سانحۂ ساہیوال، سی ٹی ڈی کے موقف کی نذر ہو کر قصہ پارینہ بن چکا ہوتا اور کوئی بھی ماننے کو تیار نہ ہوتا کہ مرنے والے بے گناہ اور معصوم تھے۔
اس واقعے میں خلیل، اُس کی بیوی نبیلہ اور تیرہ سالہ بیٹی اریبہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ آلٹو کار ڈرائیو کرنے والا مولوی ذیشان بھی گولیوں کی زد میں آ کر لقمۂ اجل بن گیا۔ مرنے والے تمام مقتولین لاہور چونگی امرسدھو کے رہائشی تھے۔ مقتول خلیل جو گھر کے قریب کریانہ کی دکان کرتا تھا۔ اپنی بیوی نبیلہ، 11سالہ بیٹے عمیر اور تین بیٹیون کے ہمراہ اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے لیے سفید رنگ کی آلٹو کار میں چونگ امرسدھو سے بورے والا کے لیے روانہ ہوا۔ ڈرائیونگ کے لیے اُس نے مولوی ذیشان کو بھی ساتھ لے لیا جو اُس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا اور خلیل کا قریبی دوست تھا۔
ابھی آلٹو بورے والا سے کافی دور تھی۔ ساہیوال قادر آباد بائی پاس کے قریب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اُسے روک لیا اور گاڑی نہ رکنے پر اُس پر ونڈ سکرین کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ شدید فائرنگ کی آواز سن کر قرب و جوار کے کافی لوگ جمع ہو گئے۔ ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے ابتداء سے اختتام تک یہ سارا وقوعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یعنی وہ وقوعہ کے چشم دید تھے۔
انہوں نے جو کہانی مقامی میڈیا نمائندگان کے سامنے بیان کی اُس کا احوال جیسے ہی مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے منظرِ عام پر آیا، ہر طرف شور مچ گیا اور ہر مکتبۂ فکر میں اس سانحہ کو لے کر سوالات جنم لینے لگے۔ سی ٹی ڈی کے اپنے مؤقف کے مطابق اگرکار سوار دہشت گرد تھے یا داعش سے اُن کا کوئی تعلق تھا تو وہ ضر ور مسلح ہوتے اور سی ٹی ڈی اہلکاروں پر جوابی فائرنگ کرتے۔ لیکن چشم دید تمام گواہان کے مطابق کار سواروں کی جانب سے ایک بھی گو لی نہیں چلی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کار سواروں میں سے کسی کے پاس بھی اسلحہ نہیں تھا۔ اسلحہ ہوتا تو ضرور جوابی فائرنگ ہوتی۔
اگر یہ دہشت گرد بھی تھے اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ آلٹو کو روک لیا گیا تھا تو انہیں آسانی سے قابو کیا جا سکتا تھا۔ آلٹو میں دو اشخاص خلیل اور ذیشان کے علاوہ ایک خاتون اور چار بچے بھی تھے۔ لیکن سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کچھ نہیں دیکھا اور کار پر اندھا دھند فائرنگ کو ہی اپنی کارروائی کا لازمی جزو جانا۔ جس سے اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا اور اب کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ پورا ملک اس سانحہ پر رنجیدہ اور اداس ہے۔ خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اس مسئلے پر آگے آنا پڑا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حیثیت بھی اس سانحے کے بعد کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہ صرف کٹھ پتلی ہیں۔ جب تک وزیراعظم کے احکامات نہیں آئے، ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہ خود اور اُن کے ایک صوبائی وزیر جو چوہان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سی ٹی ڈی کا دفاع کرتے نظر آئے۔ یہی صورت حال ہم نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی بھی دیکھی جو سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ منو بھائی کی یاد میں منائی جانے والی ایک تقریب کے دوران انہوں نے برملا مرنے والوں کو دہشت گردکہا اور ایسے الفاظ کہے جو کسی اہم حکومتی عہدیدار کے منصب کے شایانِ شان نہیں تھے۔ البتہ وزیراعظم عمران خان نے واقعہ کے اصل حقائق منظر عام پر آنے کے بعد جو ٹویٹ کیا وہ نہایت مناسب تھا جسے تقویت ملی کہ انہیں مرنے والوں کے مرنے کا احساس ہے۔ خصوصاً اُن بچوں کا جن کے ساتھ اُن کے والدین کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔سانحۂ ساہیوال کو لے کر جے آئی ٹی بن چکی ہے۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے، رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش ہو چکی ہو گی۔ لیکن مقتولین کے لواحقین اس جے آئی ٹی سے مطمئن نہیں۔ وہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سانحہ ساہیوال پر سوموٹو نوٹس لیں اور خود اس سارے معاملے کی تحقیقات کرائیں ۔ حقیقت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ اگر مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف نہ مل سکا تو نئے پاکستان کا تصور ہم برباد ہوتا دیکھیں گے اور شاید نئی حکومت ایسا نہ چاہے اور ایسا پوری قوم اور ہم بھی نہیں چاہیں گے۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور امن کا گہوارہ بنائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...