ندیم بسرا
nadeembasra@hotmail.com
سانحہ چھوٹا ہو یا بڑا،قوموں کی زندگیوں پر اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے،قومیں سانحات سے سیکھتی ہی نہیں بلکہ مستقبل میںان سے بچائو کیلئے درست سمت کا تعین بھی کرتی ہیں،ضروری نہیں سانحے دہشتگرد حملوں کی شکل میں ہی ہوں، سانحے کسی انسانی گروہ یاخاندانوں تک بھی محدود ہوتے ہیں لیکن بعض سانحات قومی شکل اختیار کرلیتے ہیں،جن کے اثرات کسی خاندان یا گروہ پرہی نہیں بلکہ مجموعی طور پرکسی ملک کے عوام کی زندگیوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں، قدرتی آفات ، سیلاب کی تباہ کاریاں، زلزلے ، بڑے حادثات ، یا پھر ایسے واقعات جو قوموں کی ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی مثال بن جائیں،ہم ان کا شمار یقینا بڑے سانحات میں کرسکتے ہیں،سانحہ ساہیوال بھی قومی سانحہ ہے،ایسا سانحہ جس نے ایک خاندان یا انفرادی سطح پر اپنے اثرات نہیں چھوڑے بلکہ مجموعی طورپر پوری قوم کا دل خون کے آنسو رورہا ہے، ذرا سوچیں!ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے؟ جن کے ابھی والدین نے لاڈپیار اٹھانے تھے،ننھی ننھی خواہشات کو پورا کرنا تھا، والدین نے ان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرکے ان کومعاشرے میں جینے کا ہنر سکھانا تھا، اور پائوں پر کھڑا کرنا تھا،لیکن افسوس! ظلم کی اندھیر نگری جس میں انصاف اور قانون دب چکے ہیں جبکہ ظلم اورباطل شیطانیت، ہوس، بے ضمیری ،حیوانیت اورسفاکیت کی شکل میں پنجے گاڑھ کر بیٹھ گیا ہے، اس ظالم معاشرے میں جس میں اپنا خون سگے بھائی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں،وہاں چچا ،تایا ،ماموں یا دوسرے قریبی رشتہ دارکب سایہ بنتے ہیں؟۔ایسا سایہ جوباپ جیسے تناوردرخت کی بدولت اولاد کونصیب ہوتا ہے،لیکن اب یہ درخت کاٹ دیا گیا ہے،رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں جب خلق خدا یہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی کہ معصوم عمیراوران کی ننھی بہنوں کے سامنے ان کے والدین اور بہن اریبا کو بے دردی کے ساتھ گولیوں کی بوچھاڑکر کے چھلنی کردیا گیا۔حکومت پنجاب کی جے آئی ٹی 72گھنٹے کی سی ٹی ڈی اہلکاروں اور عینی شاہدین ،ویڈیوز،سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ذرائع سے نامکمل تحقیقات کرچکی،نامکمل اس لیے کہ ابھی تک مقتول ذیشان کے بارے میں حکومت کشمکش میں مبتلا ہے۔ حکومت کوسانحہ ساہیوال کوٹیسٹ کیس لینا چاہیے وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پرتمام اسٹیک ہولڈرزکا اجلاس طلب کرناچاہیے کیونکہ پولیس اصلاحات صرف پی ٹی آ ئی کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے ۔سب کی مشاورت کے ساتھ پولیس اصلاحات اور حساس ادارے جیسے سی ٹی ڈی یا دوسرے ان کی حدود متعین کرنی چاہئیں۔تحریک انصاف کی نئی حکومت کیلئے پہلا بڑا سانحہ ہے،حکومت پنجاب کیلئے آزمائش ہے اگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزداراس کیس کے ملزمان کوکیفرکردارتک پہنچانے اور متاثرہ خاندان کوفوری انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے تووہ ایک مضبوط وزیراعلیٰ کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ زیراعظم عمران خان کی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے سامنے چیلنجز پہاڑ بن کرکھڑے ہیں۔ نومولود حکومت جس کو پانچ سال پورے کرنے کیلئے ایک عرصہ پڑا ہوا ہے ۔ساہیوال کے اندوہناک واقعے پر حکومت کی نااہلی یا غفلت کو نظر انداز کرنایا واقعے پر سیاست کرنا اپوزیشن کیلئے بھی مجرمانہ فعل ہوگا۔ قائدحزب اختلاف میاں شہبازشریف نے واضح کیا کہ ماضی میں سانحہ ماڈل ٹائون یا پھر زینب کیس ہو،تحریک انصاف نے خوب سیاست کی اورگزشتہ حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا،لیکن موجودہ اپوزیشن ساہیوال واقعے پر سیاست نہیں کرے گی۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک التواء بھی پیش کی،پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکی بات میںہاں میں ہاں ملائی۔اس سے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر اور حکومت کیخلاف متفق ہیں۔تاہم وزیراعظم عمران خان نے بھی اپوزیشن کی سیاسی چالیں ناکام بنانے کیلئے عوام میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے، وزیراعظم عمران خان 27جنوری کو اپنے آبائی علاقے میانوالی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے، یہ عمران خان کابطور وزیراعظم پہلا جلسہ ہوگا،اس سے لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی مخالفین کو سیاست کا جواب سیاسی میدان میں ہی دینا چاہتے ہیں،عمران خان بتانا چاہتے ہیں کہ عوام آج بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔پی ٹی آئی حکومت کیلئے دوسرا چیلنج اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کا ہے،اگر اتحادی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں توپھر حکومت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن بعض حکومتی وزراء کو چاہیے کہ زبان درازی کی بجائے فہم وفراست سے کام لیں۔بعد میںوضاحتیں پیش کرنا ۔زبان پھسل گئی ،ایسے نہیں چلے گا،اگر بیساکھی ہی توڑ دی جائے ، یا ٹوٹتی بیساکھی کوجوڑے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر گڑے میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا، وزیراعظم عمران خان کو بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا،کیونکہ چودھری شجاعت حسین نے واضح کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، لہذا وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ فوری اتحادیوں کے تحفظات کو دور کریںاوران کے جائز مطالبات کو بھی مانیں۔اگر مستقبل میں بھی اتحادیوں کو قومی معاملات سے متعلق اہم اجلاسوں میں شریک یا وفاقی کابینہ کے فیصلوں پر اعتماد میں نہ لیا گیا،چیئرمین نیب سے متعلق تحفظات ہوں ،یا حکومتی وزراء کے رویے اورنامناسب بیانات ، ایسے بیانات جس پر مونس الٰہی کو ٹویٹ میں کہنا پڑا کہ ’’وزیراعظم عمران خان فواد چودھری کو نظم وضبط سکھائیں، ورنہ حکومت سے الگ ہوسکتے ہیں‘‘ذرا سوچیئے اگر ق لیگ ادھر ادھر ہوگئی توحکومت سنبھل نہیں سکے گی۔وزیراعظم عمران خان کے سامنے تیسرا بڑا چیلنج قومی معیشت کو توانا بنانا ہے،اس کے لئے عمران خان نے دوست ممالک کے دورے بھی کررہے ہیں ۔ سعودی عرب، یواے ای ، چین، ترکی ،ملائیشیاء کے بعد اب 21تا22جنوری قطر کا 2روزہ دورہ کیا جہاں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی، قطری ہم منصب ،اور قطری سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ دورے کے پاکستان کی معیشت اور تعمیروترقی پر دورس نتائج مرتب ہوں گے،قطر نے پاکستان کوتین ارب ڈالر قرض دینے کا معاہدہ کرلیا ہے، گورنراسٹیٹ بینک نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کوپائوں پر کھڑا کرنے میں وقت لگے گا۔آئندہ دنوں میں دیکھاجائے گا کہ حکومت کا منی بجٹ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوگا یا چودھری شجاعت حسین کی بات سچ ثابت ہوگی کہ آئندہ دوماہ اہم ہیں۔