اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی، ایجنسیاں، نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ساہیوال واقعہ کی جے آئی ٹی ابتدائی رپورٹ پر بحث کی گئی جبکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں سانحہ ساہیوال پر شدید احتجاج کیا۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شور مچانا شروع کردیا۔ عمران خان نے پارلیمانی پارٹی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ساہیوال واقعے کے حوالے سے بیوروکریسی پر دھیان رکھیں، بیوروکریسی ساہیوال واقعہ پراثرانداز نہ ہونے پائے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر جوڈیشل کمشن بنانے پر تیار ہیں۔ ذمہ داروں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کی کہ ساہیوال واقعے پر میڈیا کو اعتماد میں لیا جائے۔اجلاس میں قومی اسمبلی سیشن میں ماحول بہتر رکھنے کے لیے حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران ارکان نے شکایات کے انبار لگا دئیے اور گلے شکوے کئے۔ ان کا کہنا تھا حکومتی پالیسیوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ اس سے پہلے سانحہ ساہیوال پرجے آئی ٹی رپورٹ عمران خان کو پیش کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں حکومت پنجاب کے اقدامات پر بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی افسروں کو قتل کا ذمے دار قرار دے دیا گیا جبکہ سانحہ ساہیوال میں مقتول میاں بیوی اور انکی بیٹی بے گناہ ثابت ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا سی ٹی ڈی کے سربراہ سمیت 3 افسروں کو تبدیل کردیا گیا جبکہ 2 افسروں کو معطل بھی کردیا گیا اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب پولیس میں اصلاحات کے لیے سفارشات طلب کرلیں اور مسقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی سفارشات طلب کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی مےں شہبازشریف نے مطالبہ کر دےا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو مستعفی ہو جانا چاہےے ۔ شہبازشریف نے کہا کہ سانحہ ساہیوال پر72 گھنٹے میں رپورٹ سامنے لانے کا کہا گیا جو نہیں لائی گئی، ہم نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جے آئی ٹی نہیں بنائی بلکہ ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمشن کا اسی رات اعلان کر دےا تھا۔انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر میرے استعفے اور رانا ثنااللہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گےا تھا جب کہ رانا ثنا اور ڈاکٹر توقیر نے 48 گھنٹوں میں خود رضاکارانہ طور پر استعفے پیش کر دئےے تھے ۔ پنجاب میں آج جو نظام ہے اور جو صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں وہ وزیراعظم کی اجازت کے بغیر ایک کاغذ نہیں ہلاسکتے، واٹس ایپ پر ہر چیز کی اجازت لیتے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا عندےہ دےا ہے کہ حکومت سانحہ ساہےوال پر ان کیمرہ بریفنگ دینے کےلئے تیار ہے، اس واقعہ کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا جائے گا،سانحہ ساہیوال دل کو دہلا دینے والا واقعہ ہے اس پر کوئی دورائے نہیں ،ساہیوال واقعے کے حقائق ایوان میں رکھیں گے ،قصور وار کو سزا دیں گے، ہم نے کسی پولیس افسر سمیت کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کی، ذیشان سے متعلق مزید تحقیقات کی ضرورت ہے، جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ خلیل کی فیملی بے گناہ تھی، جے آئی ٹی کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ خلیل کی فیملی کو قتل کیا گیا، والد، والدہ اور 13سال کی بچی بے گناہ اور معصوم شہری تھے،وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے جن الفاظ کا استعمال کیا گیا وہ مناسب نہیں۔سانحہ ساہیوال دلخراش واقعہ تھا، واقعے کی فوری طور پر مذمت کی گئی، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو فوری طور پر ساہیوال پہنچنے کی ہدایت بھی کی گئی، جے آئی ٹی نے 72گھنٹے میں اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کی، ماضی میں ایسے واقعات دبانے کی کوشش ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ افسوسناک واقعہ پر ایوان میں دو دن سے بحث ہو رہی ہے مگر آج اس کو اٹھانا مناسب نہیں تھا، ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو ہم احترام سے سنتے ہیں، اپنی باری پر بات کیجئے گا۔ماضی میں حکومتیں چیزیں دبانے کی کوشش کرتی تھیں جو ہم نے نہیں کیا، کسی سرکاری افسر کو تحفظ دینے کا مقصد تھااور نہ ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو قصور وار ہے اسے سزا دی جائے گی، ساہیوال واقعے کے حقائق ایوان میں رکھیں گے اور سزا دی جائے گی، سارے حقائق عوام کے سامنے لائیں گے اور قصور وار کو سزا دیں گے۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شور مچانا شروع کردیا۔ سپیکر کے بار بار مداخلت اور خاموش ہونے کی ہدایت پر اپوزیشن شور مچاتی رہی۔ بالآخر سپیکر نے لیڈر اپوزیشن شہبازشریف سے انہیں خاموش کرانے کیلئے کہا۔ شہبازشریف نے اپنے ارکان کو خاموش رہنے کی ہدایت کی تاہم ارکان خاموش نہیں ہوئے۔رانا ثناءاللہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ ساہیوال وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار فی الفور مستعفی ہوجائیں ، جے آئی ٹی ایک ڈرامہ جس کی فائنڈنگ کو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے ، حکومتی وزراءجواب دیں کہ وزراءنے ظلم کرنے والوں کو بچانے کے لئے کیوں بیانات دئیے ، وزراءقوم سے اس پر معافی مانگیں ، ابھی تک ذیشان کا دہشت گردوں سے تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا۔
عمران سانحہ ساہیوال