لاہور (خصوصی نامہ نگار+ ایجنسیاں) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے ساہیوال واقعہ پر جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کومسترد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر جوڈیشل کمشن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراﺅ کرکے احتجاج کیا اور اس دوران ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ کر اچھالتے رہے۔ سپیکر کی ہدایت پر آج جمعرات کے روز ایوان کو جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ پر بریفنگ دی جائے گی۔ حکومت نے گھریلو ورکرز کے حقوق، نمل انسٹیٹیوٹ میانوالی اور پیشہ ورانہ تحفظ کے مسودات قانون ایوان سے منظور کرا لئے جبکہ امتناع تصادم کا بل اپوزیشن کے مطالبے پر موخر کر دیا گیا۔ اجلاس 20منٹ کی دیر سے شروع ہوا تو تلاوت و نعت خوانی کے فوری بعد کورم کی نشاندہی کر دی گئی۔ مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے ڈپٹی سپیکر نے پانچ منٹ کےلئے گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی۔ دوبارہ آغاز ہونے پر بھی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو سکی جس پر سپیکر نے اجلاس 15منٹ کےلئے ملتوی کر دیا۔ دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو کورم پھر بھی پورا نہ ہوسکا جس کے بعد پھر گھنٹیاں بجائی گئیں اور کورم پورا ہونے پر اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ عبد العلیم خان نے محکمہ لوکل گورنمنٹ سے متعلق سوالوں کے جوابات دئیے۔ سینئر لیگی رکن اسمبلی رانا محمد اقبال نے کہا سانحہ ساہیوال سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا، ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے، حکومت اس اہم نوعیت کے معاملے پر بری الذمہ نہیں ہو سکتی، ہمارا ابھی بھی وہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمشن بنایا جائے۔ لیگی رکن ڈاکٹر مظہر نے کہا کہ وزیر قانون نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سب سے پہلے ایوان کو بریفنگ دیں گے لیکن وہ میڈیا پر تمام بریفنگ دے رہے ہیں کیا ایوان کی کوئی اہمیت نہیں۔ سوالات کے دوران لیگی رکن رانا منور حسین نے محکمہ بلدیات کی جانب سے دوسری بار بھی درست جواب نہ آنے پر احتجاجاً ایوان کی کارروائی سے واک آﺅٹ کیا۔ اور چیئر کے کہنے پر صوبائی وزیر سمیع اللہ ان کو مناکر ایوان میں لے کر آئے۔ لیگی رکن چوہدری افتخار کے ایک ضمنی سوال پر صوبائی وزیر عبد العلیم خان نے اعتراف کیا کہ پورے پنجاب میں پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس کا وائرس موجود ہے اس کےلئے حکومت نے ایک اتھارٹی بنانے کا منصوبہ شروع کردیا ہے کہ اسی سال میں صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے ایک اتھارٹی بنا رہے ہیں پورے پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی ہماری پہلی ترجیحی ہو گی۔سرکاری کارروائی شروع کرنے سے قبل اپوزیشن نے سانحہ ساہیوال کی جے آئی ٹی پربحث کرنے کی اجازت طلب کی لیکن ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن سے ہنگامہ شروع کردیا۔ اسی دووران سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اجلاس چیئر کرتے ہوئے معاملے کو ہینڈل کرلیا اور اپوزیشن سے کی رضا مندی سے تین بل پاس کرالیے جبکہ امتناع تصادم کے بل اپوزیشن کے کہنے پر موخر کردیا گیا۔ گھریلو ملازمین کے تحفظ کے بل کے تحت 15سال سے کم عمر کو ملازم نہیں رکھا جاسکے گا،گھریلو ورکر کو ملازمت کا اپوائٹمنٹ لیٹر دیا جائے گا جس میں کام کی نوعیت اور تنخواہ کا واضح بتایا جائے گا، کم عمر ملازم رکھنے پر قید اور جرمانے کی سزا ہو گی۔ مالک کے خلاف جھوٹی شکایت درج کرانے پر ورکر کے خلاف پانچ ہزار روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا، ہر گھریلو ورکر کی حکومت رجسٹریشن کرے گی او ریہ رجسٹریشن تین سال کے لئے کی جائے گی اور مخصوص سکیورٹی نمبر جاری کیا جائے گا، حکومت کی جانب سے ڈومیسٹک ورکرز ویلفیئر فنڈ بھی قائم کیا جائے گا جس کے تحت قرضے دئیے جائیں گے۔ منظور کئے گئے بل کے مطابق گھریلو ملازمین تنخواہ، مذہب، برادری، جنس اور ڈومیسائل کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے مبرا ہوں گے۔ گھریلو ملازم کو ملازم کی بجائے ورکر کہا جائے گا،زائد کام اس کی اجازت یا زائد پیسے دئیے بغیر نہیں لیا جاسکے گا۔ ورکر کو بہتر ماحول اور صحت کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی، وکرر کو بیماری، میٹرنٹی اور میڈیکل کی سہولیات دی جائیں گی۔ بل کے ایوان سے منظور ہونے کے مالک 60دن کے اندر تقرر نامہ ورکر کو دینے کا پابند ہوگا۔ گھریلو ورکر اپوائٹمنٹ لیٹر میں لکھے گئے کاموں کے سوا دیگر کام کرنے کا پابند نہیں ہوں گے، ورکر آٹھ گھنٹے سے زائد کام کرنے کا پابند نہیں ہوگا تاہم گھریلو ورکر اوور ٹائم کرنا چاہے تو وہ مفت یا پیسوں کے عوض کرسکے گا۔ اڑتالیس گھنٹوں سے زیادہ کئے جانے والے کام کا گھنٹوں کے حساب سے پیسے دینا ہوں گے۔ گھریلو ورکر ہر ہفتے میں 56گھنٹے سے زائد کام نہیں کرسکے گا، گھریلو ورکر کو ہر ہفتے میں ایک چھٹی دی جائے گی جبکہ ایک سال کے دوران ہر ورکر کو آٹھ چھٹیاں پوری تنخواہ کے ساتھ دی جائیں گی، گھریلو ورکر کو سرکاری تعطیلات کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔ بل کے مطابق گھریلو ورکر کی کم سے کم تنخواہ حکومت کے طے کردہ قوانین سے کم نہیں رکھی جاسکے گی، گھریلو ملازم کو جنس کی بنیاد پر کم تنخواہ دینے کی پابندی ہوگی،مالک گھریلو ورکر کو گھر میں رکھنے کی صورت میں مفت رہائش دینے کا پابند ہوگا، مالک بیماری کی صورت میں گھریلو ورکر کا علاج معالجہ کروانے کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ گھریلو ورکر ایک ماہ کے تحریری نوٹس پر نوکری چھوڑنے کا پابند ہوگا جبکہ مالک پر بھی یہی شرط لاگو ہوگی۔ مالک ورکر کو تنخواہ مقررہ تاریخ تک دینے کا پابند ہوگا اور نوکری سے نکالنے کی صورت میں ایک دن کے بعد واجبات دینے کی پابندی ہوگی۔
پنجاب اسمبلی