اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد ملزم شاہ حسین کو عدالت عظمیٰ کے باہر سے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، جس کے تحت ملزم کی 7 سال کی سزا کم کر کے 5 سال کر دی گئی تھی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ 'جی ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے'۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے؟ جس پر خدیجہ صدیقی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'ہائیکورٹ نے مقدمے کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا جبکہ ان کی موکلہ کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ملزم کو مقدمے میں تاخیر سے نامزد کیوں کیا گیا؟ جبکہ خدیجہ کی بہن نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی'۔ جس پر خدیجہ صدیقی کے وکیل نے بتایا کہ 'حملے کے وقت ان کی موکلہ ہوش وحواس میں نہیں تھی اور انہوں نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا'۔ وکیل نے مزید بتایا کہ 'زخمی خدیجہ پانچ روز بعد ہوش میں آئی اور ہوش میں آتے ہی فوری طور پر اس نے ملزم شاہ حسین کا نام لیا'۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'دونوں قانون کے طالبعلم تھے، لہذا قانون کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں'۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'سب سے اہم یہ ہے کہ اگر ملزم شاہ حسین، لڑکی میں دلچسپی رکھتا تھا، تو وہ قتل کیوں کرنا چاہتا تھا؟ جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ 'ملزم کے پاس کئی مواقع تھے کہ وہ قتل کردیتا، اس نے گنجان علاقے میں ہی قتل کیوں کرنا چاہا؟ کیا یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی؟ خدیجہ صدیقی کے وکیل نے بتایا کہ 'یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دونوں بہت قریبی دوست تھے اور قتل کی کوشش سے 7 ماہ قبل دونوں کے درمیان تعلق ختم ہو چکا تھا۔ وکیل نے مزید کہا کہ 'شاہ حسین اصرار جبکہ ان کی موکل خدیجہ انکار کرتی رہی، یہ اصرار اور انکار کا کیس ہے'۔ چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ 'ریکوری میمو میں لکھا ہے کہ ہیلمٹ اور دو بال بھی ملے، کیا بالوں کا ڈی این اے کرایا گیا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 'خدیجہ حملہ کیس میں تفتیش ناقص رہی، پولیس نے کہا کہ بال فرانزک لیب کو بھیجے تھے لیکن فرانزک لیب کو بال موصول نہ ہوئے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'لاہور میں خطے کی اولین اور دنیا میں دوسری بہترین فرانزک لیب ہونا قابل فخر بات ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'ایسے مقدمات میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں، کہا میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ دوسری یہ کہ لڑکی کے پاس کچھ ایسا ہو کہ جس سے لڑکے کو بلیک میل کیا جائے۔ جسٹس کھوسہ نے مزید استفسار کیا کہ 'کیا استغاثہ نے بھی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی التجا کی ہے؟ جس پر خدیجہ صدیقی کے وکیل نے بتایا کہ 'عدالت معاملہ ہائیکورٹ کو بھیجنے کے بجائے جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہوگا'۔ دوران سماعت وکیل صفائی خالد رانجھا کی گزارش پر ملزم شاہ حسین نے کورٹ میں دلائل دینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے ملزم کو 2 منٹ تک بات کرنے کی اجازت دی۔ ملزم شاہ حسین نے کہا کہ 'تعلقات کے خاتمے اور شادی سے انکار پر اس کا نام لیا گیا اور خدیجہ صدیقی نے جرح میں مجھے بھیجے گئے خطوط پر اعتراض کیا'۔ شاہ حسین نے عدالت کے روبرو کہا کہ 'استغاثہ نے مجھے ڈیسپریٹ شخص ظاہر کرنے کی کوشش کی'۔ دوسری جانب خدیجہ صدیقی نے کہا کہ 'شاہ حسین مجھے جذباتی کرکے بلیک میل کر رہا تھا۔ چیف جسٹس نے خدیجہ صدیقی سے ڈاکٹر کو دیئے گئے بیان سے متعلق سوال کیا۔ جس پر خدیجہ صدیقی نے جواب دیا کہ 'مجھے بہت کم یاد ہے، یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے بولا بھی تھا یا نہیں جبکہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں'۔ لا کالج کی طالبہ خدیجہ کو 2016 میں اسکے کلاس فیلو نے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی کر دیا تھا۔ شاہ حسین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سپریم ہے، فیصلے کے خلاف ریویو میں جانا نہیں چاہتا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں ملزم احمد علی کو ساڑھے نو سال بعد بری کر دیا۔ یاد رہے کہ ملزم احمد علی پر 2009ءمیں بھکر میں اپنی اہلیہ رخسانہ بی بی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کا حکم دیا۔ ہائیکورٹ نے سزا کو عمرقید میں تبدیل کر دیا تھا۔
شاہ حسین گرفتار