آغا سید حامد علی شاہ موسوی
خاتون جنت سیدۃ النساء العالمین تفسیر کوثر، شاخ ثمر باررسول ؐ
، شاخ ثمر باررسول ؐ۔شافعہ روز ِجزاشبیہہ مصطفیؐ۔ نبیؐ کے دل کا چین ماد رحسنین
ام المونین حضرت عائشہؓسے روایت ہے ’’ اپنے وقت وصال کے وقت رسول اللہؐنے فاطمہ ؓکے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہؓفرماتی ہیں ، میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے باباؐ نے اپنی رحلت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔پھر بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔(بخاری ، مسلم ، احمد بن حنبل)
مستدرک علی الصحیحین میں امام حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں، رسول اللہؐ نے اپنے وقت آخر میں حضرت فاطمہ سے فرمایا بیٹی!کیا تم خو ش نہیں کہ تم امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردارہو ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایسا گریہ یعقوب نبی ؑ نے بھی اپنے یوسف کیلئے نہ کیا ہوگا جیسابنت رسول ؐ حضرت فاطمہ نے نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعدکیا، حضرت فاطمہ زہراؑ اتنا گریہ کرتیں کہ مدینہ کے درو دیوار گریہ کرنے لگتے ۔بی بی ایسا نوحہ پڑہتیں کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی، اور یہ کہتی جاتی تھیں : اے ابا جان! اب جبریل کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ہے جو آسمان سے وحی لے کر اترتے تھے۔(طبرانی )
جب حضرت فاطمہ ؓآقائے دوجہاں ؐکے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو قبرِ اَنور کی مبارک مٹی اْٹھا کر آنکھوں پر لگا لیتیں اور حضورؐ کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں:جس شخص نے آپؐ کے مزارِ اَقدس کی خاک کو سونگھ لیا ہے اسے زندگی میں کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہیں۔ آپ ؐ کے وِصال کے بعدمجھ پر جتنے عظیم مصائب آئے ہیں اگر وہ دنوں پر اْترتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔( ذہبی، روح المعانی آلوسی )
حضرت فاطمہؓ نبی کریم ؐ کی قمیص سونگھتیں اورگریہ کرتیں بحار الانوار میںروایت ہے کہ جب پیغمبرؐوفات پاگئے تو موذن رسول ؐ حضرت بلالؓنے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فا طمہؓ نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپؐ کے موذن کی اذان سنوںبلالؓ نے جناب فاطمہؑ کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فا طمہؓ کو اپنے باپ ؐکے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فا طمہ نے چیخ ماری اور غش کرگئیں۔(بحار الانوار)
پیغمبر اسلام ؐ کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہراؓ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں تو بے حد مغموم و فکر مند تھیںحضرت اسماء بنتِ عمیسؓ نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں لگتاکہ جب عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر آتا ہے . اسماؓنے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو۔ اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پرمسکرا دیںاور پیغمبر کے بعدیہ پہلا موقع تھا کہ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے ۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلی خاتون جس کی میت تابوت میں اٹھی وہ حضرت فاطمہ ؓ تھیں۔
اور نبی کریم ؐکی پیش گوئی کے مطابق حضرت فاطمہ ؓ اپنے پیارے بابا کی رحلت کے بعد محض 75یا 95دن یا 6ماہ زندہ رہیں ۔ تمام مفسرین محققین مورخین اس ام رپر متفق ہیں کہ جس قدر شان خاتون جنت کی نبی کریم ؐ کی زبان مبارک سے بیان کی گئی کوئی دوسری ہستی اس کے مثل نہیں ۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ؐکے پاس اپنی اور والدہ کی مغفرت کی دعا کروانے کی خواہش لے کر حاضر ہوا، پیغمبر اکرم ؐ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت کرے، ایک ایسا فرشتہ جو آج کی رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، آج اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ زہراؓجنتی عورتوں کی سردار اور حسن ؓو حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔(جامع ترمذی ۔ جلد دوم ، مسند احمد بن حنبل ، طبرانی ، مستدرک )
رسول خداؐ حضرت فاطمہ ؓسے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔’’حضرت مسور بن مخرمہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا :بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے خوشی ہوتی ہے اورجس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔
حضرت فاطمہ زہراؑ ہوبہو رسول خداؐ کی تصویر تھیں ۔ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے عادات چال چلن خصلتوں اور اٹھنے بیٹھنے میں فاطمہ بنت محمدؐ سے آپ سے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ جب حضرت فاطمہ آتیں تو آپ ؐکھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ (جامع ترمذی:جلد دوم متفق علیہ)
نجران کے عیسائی جب دلیل سے اسلام کی عظمت کو نہ مانے تو اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ان سے مباہلہ کرو’’اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور اللہ کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے اللہ کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں‘‘
عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول اللہؐ اس شان سے تشریف لے گئے حسن و حسن اپنے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے دستبردار ہوگئے ۔عیسائیوں کا اسقف اعظم پکار اٹھا کہ ان سے مباہلہ نہ کرنا اگر ان ہستیوں نے بددعا کردی تو قیامت تک کوئی عیسائی زندہ نہیں بچے گا اگر یہ ہستیاں پہاڑ کو اشارہ کریں گی تو یہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا۔ عیسائی رسول خداؐ علی المر تضیٰ اور حسنین شریفین کو پہلے دیکھ چکے تھے ، یہ سیدہ ز ہراؓ ہی تھیں جن کے وجود سے جب پنجتن کی بزم مکمل ہوئی تو عیسائیوں کے صاحبان عرفان نے اس خانوادے کی بزرگی و جلالت دیکھ کر اسلام کا مقابلہ کرنے سے توبہ کرلی ۔
(حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )امام فخر الدین رازی کے مطابق رسول خداؐ کے فرزندان رسول عبد اللہ و قاسم کے انتقال پر رسول کو ابتر کہنے والوں کے طعنے کا جواب بھی حضرت فاطمہ زہرا ہی تھیں جن سے نبیؐ کی نسل چلی ۔ابن عباس پیغمبر خدا ؐسے روایت کرتے ہیںچار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ؐ، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ افضل حضرت فاطمہؓ ہیں"۔ (الدر المنثور سیوطی)۔(تفسیرروح المعانی) اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ
مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
"حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے :رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی نے فرمایا :یہ جبرائیل ہے جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کردی ہے اورتمہارے نکاح پر چالیس ہزارفرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا اورشجرہائے طوبی سے فرمایا :ان پر موتی اوریاقوت نچھاور کرو۔پھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اوریاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں تقریب نکاح میں شریک کرنے والے فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے " (ریاض النضرہ )
حضرت فاطمہ صرف رسول ؐ نہیں بلکہ اللہ کے حضور بے مثل مقام رکھتی ہیں جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کر دیئے گئے تو واحد گھر جس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلا رہنے دیا گیا وہ حضرت فاطمہ زہرا کاہی تھا۔محدثین بیان کرتے ہیں جس وقت سورہ نور کی یہ آیہ مبارکہ’’فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہ لا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَال‘‘ ( (خدا کانور) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے) پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ سلم نے اس آیت کو مسجد میں تلاوت کیا ، اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے رسول گرامیؐ! اس اہم گھر سے مراد کونسا گھر ہے؟پیغمبر اکرم نے فرمایا: پیغمبروں کے گھر!حضرت ابوبکر ؓنے حضرت فاطمہ وعلی کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے ہے؟پیغمبر اکرم ؐنے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے (در المنثور، ج۶ ۔تفسیر سورہ نور، روح المعانی)
حضرت سیّدہ فاطمہ ؓ بنت رسول خداﷺ
Jan 24, 2020