وزیر اعظم پاکستان عزت مآب جناب عمران خان ویسے تو اپنے بہت سے وعدوں سے یو ٹرن لے چکے ہیں یا یو ٹرن کے بعد پھر یو ٹرن لے لیتے ہیں لیکن اپنے ایک وعدے پر وہ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور بڑی دلیری سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ۔امریکہ سرکار کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح ایک بار ان کی جنگ لڑے نہ صرف ان کے لیے اپنے لوگ قربان کرنے کا عہد کرے بلکہ ایران کے خلاف امریکہ کا اتحادی بھی بنے۔لیکن وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر کو کھل کے کہہ دیا ہے کہ اب پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو بہت پہلے کر لیا جاتا تو پاکستان بہت پہلے امن کا گہوارہ بن چکا ہوتا ۔افغان روس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے سے پہلے کے پاکستان پہ اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اس ملک میں بڑے گھر چمکتی گاڑیاں اور عالیشان پلازے تو شاید بہت کم ملیں لیکن پاکستان معاشی سپر پاور کے طور ابھر رہا تھا ۔ملک پر کوئی خاص قرض بھی نہیں تھا۔نئی نئی فیکٹریاں لگا کرتی تھیں جن سے نوجوانوں کو نوکریاں آسانی سے مل جایا کرتیں۔ ہر طرف محبتوں کا پیام دینے والے لوگ ضرور مل جایا کرتے ہیں ۔اسی کی دہائی سے پہلے پاکستان دنیا کے پر امن اور مہمان نواز ملک کے طور جانا جاتا تھا ۔دنیا بھر کے سیاح پاکستان آیا کرتے پاکستان کے شمالی علاقوں کے حسن میں کھو جاتے اور کبھی پرانے لاہور کی گلیوں میں نغمے الاپتے نظر آتے ۔لیکن ایک غلط فیصلے سے اس ملک میں اسلحہ اور نشے کی وہ فصل تیار ہوئی جس کا کڑوا پھل آج بھی ہمارے منہ کا ذائقہ کڑوا کیے رکھتا ہے ۔نائن الیون کے بعد بھی اگر ملک میں کوئی عمران خان جیسا وزیر اعظم ہوتا کوئی جنرل باجوہ جیسا زیرک سپہ سالار ہوتا تو شاید ہم امریکہ کے ایک اشارے پہ اپنے گھر کو آگ و خون کا مسکن نہ بننے دیتے ۔امریکہ کی اس جنگ میں پاکستانی قوم نے بہت قربانیاں دیں ۔حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی بہادر فوج کے پیچھے کھڑی رہ کے دشمن کے ہر ہر وار کو انہی پہ پلٹ دیا ۔آج الحمد اللہ پاکستان دنیا میں امن کے نشان کے ابھر رہا ہے ۔پاکستانی قوم ایک بار پھر دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دے رہی ہے ۔ہمارا دشمن بھارت جو طاقت کے نشے میں غلط فیصلے کررہا ہے اسی کے گلے پڑنے والے ہیں۔ ایک نامور بھارتی لکھاری نے لکھا تھا کہ آج دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے سیاحت کے حوالے سے پہلی ترجیح پاکستان بنتا جارہا ہے ۔بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے سعودی عرب ایران دوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایران کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ عربوں سے اربوں ڈالر ان کا دفاع کرنے کے لیے حاصل کیے جائیں اور امریکہ اس کوشش میں کامیاب بھی جارہا ہے ۔ جن کے آباء نے کسی وقت کی سپر پاورز کو اللہ کی مدد سے پاش پاش کردیا تھا وہ عرب آج بے پناہ دولت کی وجہ سے اتنے عیا ش , کمزوراورکھوکھلے ہوچکے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے غیر مسلموں کی مدد مانگنے پہ مجبور کیے جاچکے ہیں ۔امریکہ ایک طرف افغان جنگ میں بری طرح پِٹ چکا ہے اور افغانستان سے باعزت نکلنے کے لیے پاکستانی تعاون کا خواہاں ہے ۔تو دوسری طرف ہمارے عرب مہربان بڑی آسانی سے اس کے چنگل میں پھنس کے اپنے ملکوں کے حالات خراب کر وارہے ہیں ۔پاکستانی وزیر خارجہ پچھلے کچھ ہفتے ایران سعودی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے بہت سرگرم رہے اور پھر مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی اور خطے میں امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ دورہ ء ایران و سعودی عرب کے دوران ہونیوالی ملاقاتوں کی تفصیلات سے امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ پاکستان،خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کیلئے پر عزم ہے۔وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے گزشتہ پانچ ماہ سے 80لاکھ کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے محصور کر رکھا ہے -مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذرائع مواصلات پر تاحال پابندی عائد ہے تاکہ اصل حقائق کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے، ''پرامن جنوبی ایشیا'' کا خواب اس وقت تک شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اسی لاکھ کشمیریوں کے استصواب سے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کاوشوں سے،چالیس سالہ طویل محاذ آرائی کے بعد سیاسی حل کے ذریعے ''امن کی نوید سنائی دے رہی ہے پاکستان، خلوص نیت کے ساتھ ''افغان امن عمل''کی اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھا رہا ہے۔