حضرت قبلہ پیرسید غلام محی الدین المعروف بابوجیؒ

توقیرِ ولایت اعزازِسعادت حضرت قبلہ پیرسید غلام محی الدین المعروف بابوجیؒ،گیلانی رزاقی حسنی حسینی کے نسب پاک کا سلسلہ 26 واسطوں سے حضرت پیر عبدالقادر جیلانی غوث اعظم ؒ 37 واسطوں سے حضرت امام حسن ِ مجتباؑ تک پہنچتا ہے۔آپکی پیدائش 1891 عیسویں میں گولڈہ شریف میں حضرت قبلہ پیر سید مہر علی شاہ گیلانی کے گھر میں ہوئی آپکے والد بزرگ وار کو جب مبارک باد دی گئی توآپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا ہمارے گھر میں اللہ اللہ کر نے والی روح آ گئی ہے۔آپکو سید الاولیا کی گود میں پرورش پانا نصیب ہوئی ۔ابتدائی تعلیم کے لئے حضرت پیر مہر علی شاہ نے آپنے مرید فاضل جامعہ صولتیہ کے مدرس محقق جن کے اساتذہ مین مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور حضرت حاجی امداداللہ محاجر مکی جیسے شخصیات تھے۔میری مراد قاری عبد الرحمٰن جونپوری کو تجوید پڑھانے کے لئے اور علامہ محمد غازی صاحب کو درس ِنظامی کی تعلیم کیلئے مقرر فرمایا گیا۔مولانا محمد غازیؒ نے قبلہ بابوجی صاحب کو ملاجامی تک اسباق پڑھائے اور باقی حدیث تفسیر ،مسنوی شریف اور فتوحاتِ مکیہ حضرت قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ نے خود پڑھائی ۔روحانی تربیت بھی آپکے والد حضرت ِاعلیٰ نے فرمائی ۔آپ فرماتے ہیں ایک بار کہیں جا رہے رتھے میں نے پلٹ کر دیکھا،تو میر ا بیٹا غلام محی الدین میرے نقشِ قدم پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے کہا ہے میری راہ پر چلنا ہے تو تین باتوں کی پابندی کرنا ہو گی۔اول ہمیشہ با وضو رہنا۔دوم کاحدمن الناس یعنی لوگوں میں عام آدمی بن کر رہنا ۔سوم خودی کو مٹائے رکھنا۔تمام متوسلین جانتے ہیں کہ ان ارشادات پر آپنے عمل کیا۔آپ منکسر مزاجی سے کام لیتے۔آپکی زندگی
اسلامی قرون اولا کے اُن اسلاف گرامی کی حیاتِ طیبہ کا نمونہ تھی۔
قبلہ پیرمہر علی شاہ جب خط لکھتے تو بابوجی صاحب کو اصولِ علم مہمان نوازی لوگوں سے حسنِ سلوک اساتزہ کی تعزیم و توقیر نماز با جماعت ادا کرنے مدرسے کی طلباء کی ہر طرح کی خبر گیری کرنا رات کے وقت ماواجب ارام کرناکی تاکید فرماتے۔اور آخر میں یہ شعر لکھتے
نمی گویم کہ از عالم جدا باش
بہر جائے کہ باشی باخدا باش
کہ میں یہ نہیں کہتا کہ جہاں سے جدا رہو جہاں کہیں رہو حق تعالیٰ کے ساتھ رہو۔
حضرت اعلیٰ پیر مہر علی شاہ صاحب کو حضرت بابوجی کے بارے اطمینان ہو گیا کہ علمی اور روحانی مدارج بطورِ احسن طے کر چکے ہیں ۔
اور ظاہری اور باطنی اوصاف حاصل کر لئے تو آپ نے بیت کرنے کی اجازت فرمائی۔بابوجی منکسر المزاج تھے آپکے حکم پر بارِگراںاُٹھانا پڑا۔ کتاب مہرِ منیر صفحہ نمبر 369 پر مولانہ فیض احمد صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں قیام کے دوران سید احمد العطاس مدنی سے استفسار کیا کے جنا ب کے تعلقات قبلہ بابوجی سے کس طرح استوار ہوئے جناب مدنی صاحب نے فرمایا میں ایک مرتبہ گولڑہ شریف حاضر ہوا میری دلی خواہش تھی کہ حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ سے شرف بیت حاصل کروں ۔لیکن حضرت کا وصال ہو چکا تھامیں آپکے مزار پر بیٹھ کر زارو قطار وتا رہا۔ایک دن خاندانی اوراد پڑ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے حضرت کی زیا رت کی محرومی کے باعث بڑا قلق تھا۔اچانک حضرتِ اعلیٰ پیر مہر علی شاہ صاحب بنفسِ نفیس تشریف لائے مجھے تسلی دی اور فرمایا میں اور بابوجی ہم دو نہیں ہیں ۔تم اُس کے مرید ہو جائو تو سمجھو میرے مرید ہو گئے ۔اِس سے میری تشفی ہوئی اور قبلہ بابوجی صاحب سے بیت کا شرف حاصل ہوا، قبلہ
بابوجو کا دور سیاسی گہما گہمی کا دور تھا مگر آپ اپنے والد کی طرح سیاست سے گریزاں رہے ۔کسی نے کہا سیاست میں آ جائیں خانقاہی نظام کو چھوڑ دیں ۔ آپ نے فرمایا یہ وقت بہت نازک ہے کوئی قسمت والا ایمان بچا سکے گا ۔قبلہ بابوجی نے ترکِ موالات میں وہی نظریہ اختیار فرمایا جو آپکے والد نے اختیار فرمایا تھا۔شرعی تقاضوں کے مطابق اپنایا تھا۔ اگرچے ہمارے حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ کی ملاقات موالانا احمد رضا خان بریلوی سے نہیں ہوئی تھی مگر تحریک خلافت اور ترک ِ موالات میں دونوں حضرات کا نظریہ ایک تھا۔خواجہ پیر مہر علی شاہ نے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے خط کے جواب میں جمیعت علماء ہند کی غیر دانشمندانہ اندازِ فکر پر تنکید فرمائی آپ انگریز حکومت سے تعاون کے حق میں نہیں تھے اور یہی راہ قبلہ بابوجی نے اختیار فرمائی ۔ آپکو ترک مسلمانوں سے بہت محبت تھی یہاں تک کہ اُن کی امداد کے لئے لنگرشریف کے گھڑے اور گھر کے زیورات بیچ کر ترکی مسلمانوں کی امداد فرمائی تھی۔آپ فرماتے کان حق علینانصر المومنین یعنی مومنین کی مدد کر نا ہم پر حق ہے۔1940 ء میں قرار دادِ پاکستان کی تحریک منظور ہوئی حضرت بابوجی نے اپنے احباب حلقہ اثرپنجاب اور خیبر پختون خواہ کو پاکستان کے قیام کے لئے پُر زور حمایت کا حکم دیا۔ آپ نے محمد علی جناح کے نام ایک ٹیلی گرام بھیجا ۔جسکا اصل متن گولڑہ شریف میں موجود ہے۔اُسکا مضمون یہ تھا کہ علمائے کرام پر مشتمل ایک بورڈ قائم کیا جائے جو اسلامی قوانین کو مرتب کرے ۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی ملک میںاسلامی آئین نافظ کیا جا سکے مگر افسوس قائداعظم وصال کر گئے اور یہ آئین نافظ نہ ہو سکا ۔اُن کے پیروکاروں کو آج تک نافظ کر نے کی جرت نہ ہوئی۔ختمِ نبوت میں آپکا کردار نمایاں رہا۔آپکو ورثے میں ملا ہوا تھا۔مرزائیت قلعہ پر ضربِ یداللہ لگ چکی تھی لیکن طاغوتی قوتیں قانون ساز اداروں میں خناسیت کر رہی تھی۔آخر کار 7 ستمبر 1974 ء کی قومی اسمبلی میں آپکے نمائندہ خاص آغا شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ قبلہ بابوجی کی گہری وابستگی کی وجہ سے آپکو 16 سال سے جانتا ہوں اور نیازمند رہا ہوں ۔ہر چیز قربت سے کشش کھو دیتی ہے لیکن بابوجی کا وجود فی الواقعہ معرفت اور وفا کا خزینہ تھا ۔آپ سے قرب ارادت پیدا ہوتی ۔آپ زمین پر موجزہ الٰہی تھے۔فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا تو آپ سے رابطہ پیدا کرنا چاہا۔اپنے سیکرٹری کو آپ کے خدمت میں بھیج کر پیغام پہنچایاکہ صدرِ پاکستان جناب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔تو آپ نے ایک شعر پڑھا کہ
نعم الامیرُ علیٰ باب الفقیر،وبئس الفقیرُ علیٰ بابِ المیر
اچھا بادشاہ فقیر کے در پر آتا ہے اور بُرا فقیر بادشاہ کے در پر جاتا ہے۔فرما یا مجھے ملاقات سے معزور رکھیں نہ یہ طرزِ زندگی میرے مشائخ کا رہا اور نہ ہی میر ا ہے ۔حضرت بابوجی صداقتوں کی ترت پھرت تصویر تھے۔آپکا وجود ایک تحریک کا نام تھا۔سید عطااللہ شاہ بخاریؒ آپ کے گھٹنو ں کو ہاتھ لگا کر ملتے اور فرماتے کہ آپ کے بابا جان کے لگے پودے کو اپنی کوششوں سے پانی دے رہے ہیں ۔آپ نے 1953 ء کی تحریک ختم ِ نبوت کے اسیر کارکنان کو چھڑانے کے لئے وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین گورنر نوب کالا باغ اور میاں مشتاق گورمانی وزیرِداخلہ سے ملاقات کر کے رہائی دلائی۔1965 ء کی جنگ میں جنرل ایوب خان کی درخواست پر آپ نے ریڈیو پاکستان پر خطاب کر تے ہوئے فرمایا :
کہ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے، بے شک اللہ تعالیٰ خرید کر تا ہے مومنوں کی جانوں کو بدلے جنت کے،آیت کے آخر تک پڑ ھ کر فرمایا میرے پیر بھائیو مرید دوستو اِس وقت پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی ۔ہر حال میں تم پاکستان کی آرمی فضائی بہری افواج کا ساتھ دو،دمِ درہمِ سخنِ قدمِ شانہ بشانہ سرحدوں پر کھڑے رہو ۔جو شہید ہو جائے گا وہ حیا ت بھی ہے اور جنتی بھی اور جو زندہ رہے گا وہ مجاہد و غازی بنے گا، میری دعائیں تمہارے ساتھ رہیں گی ۔اس خطاب کا اثر یہ ہوا کہ پوری قوم بوڑے ،بچے ،جوان پاکستان کے باڈروں پر پہنچ گئے آرمی اُس جزبہ جہاد کے تحت لڑ کر فتح یا ب ہوئی ۔قبلہ بابوجی نے حضور اعلیٰ سید پیر مہر علی شاہ کی تصانیف بلخصوص سیفِ چشتیائی اور دیگر کتب دئے اور فرمایا شورش یہ کتابیں ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور علمائے کرام جو ممبرانِ اسمبلی ہیں اُن کو دے آئو تاکہ قوی ثبوت کے ساتھ دلائل دے سکیں ۔اور ذوالفقار علی بھٹو کو کہو کہ اگر تم آخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو مرزائیوں کو کافر قرار دے دو تم دونوں جہانوں میں سُرخرو ہو جائو گے۔ چنانچہ آغاشورش کاشمیری نے پیغام اور کتب ان شخصیا ت کو پیش کی اور ذولفقار علی بھٹو کے قدموں پر اپنی ٹوپی اُتار کر رکھ دی اور رونے لگے ۔اگلے دن جناب ذولفقار علی بھٹو نے مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مفتی محمود پروفیسرعبدالغفور دیگر نے پیر مہر علی شاہ صاحب کی تصانیف پڑھ کر اسمبلی میں بحث کر کے میدان مار لیا ۔7 ستمبر 1974 ء کی فتح کا سحرہ فی الحقیقت قبلہ پیر بابوجی صاحب اور ذولفقارعلی بھٹو کے سر جاتا ہے ۔آپکا وصال 1974 ء میں ہوا ۔آپ کا پینتالیسواں عرس مبارک یکم دو ربیع الثانی 1441ھ زیرِ قیادت پیر سید شاہ عبداحق گیلانی سجادہ نشین درگاہ عالیہ گولڑہ شریف منعقد ہو رہا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن